دیوالی (I)

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیوالی
by نظیر اکبر آبادی

ہر اک مکاں میں جلا پھر دیا دوالی کا
ہر اک طرف کو اجالا ہوا دوالی کا
سبھی کے دل میں سماں بھا گیا دوالی کا
کسی کے دل کو مزا خوش لگا دوالی کا
عجب بہار کا ہے دن بنا دوالی کا
جہاں میں یارو عجب طرح کا ہے یہ تیوہار
کسی نے نقد لیا اور کوئی کرے ہے ادھار
کھلونے کھیلوں بتاشوں کا گرم ہے بازار
ہر اک دکاں میں چراغوں کی ہو رہی ہے بہار
سبھوں کو فکر ہے اب جا بجا دوالی کا
مٹھائیوں کی دکانیں لگا کے حلوائی
پکارتے ہیں کہ لالہ دوالی ہے آئی
بتاشے لے کوئی برفی کسی نے تلوائی
کھلونے والوں کی ان سے زیادہ بن آئی
گویا انہوں کے واں راج آ گیا دوالی کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse