دیوالی کے دیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیوالی کے دیے  (1940) 
by سعادت حسن منٹو

چھت کی منڈیر پر دیوالی کے دیے ہانپتے ہوئے بچوں کے دل کی طرح دھڑک رہے تھے۔

مُنی دوڑتی ہوئی آئی۔ اپنی ننھی سی گھگری کو دونوں ہاتھوں سے اوپر اٹھائے، چھت کے نیچے گلی میں موری کے پاس کھڑی ہوگئی۔۔۔ اس کی روئی ہوئی آنکھوں میں، منڈیرپر پھیلے ہوئے دِیوں نے، کئی چمکیلے نگینے جڑ دیے۔۔۔ اس کا ننھا سا سینہ دیے کی لو کی طرح کانپا، مسکرا کر اس نے اپنی مٹھی کھولی، پسینے سے بھیگا ہوا پیسہ دیکھا اور بازار میں دیے لینے کے لیے دوڑ گئی۔

چھت کی منڈیر پر شام کی خنک ہوا میں دیوالی کے دیے پھڑپھڑاتے رہے۔

سریندر دھڑکتے ہوئے دل کو پہلو میں چھپائے، چوروں کی مانند گلی میں داخل ہوا اور منڈیر کے نیچے بے قراری سے ٹہلنے لگا۔۔۔ اس نے دِیوں کی قطار کی طرف دیکھا۔ اسے ہوا میں اچھلتے ہوئے یہ شعلے اپنی رگوں میں دوڑتے ہوئے خون کے رقصاں قطرے معلوم ہوئے۔۔۔ دفعتاً سامنے والی کھڑکی کھلی۔۔۔ سریندر سرتا پا نگاہ بن گیا۔ کھڑکی کے ڈنڈے کا سہارا لےکر ایک دوشیزہ نے جھک کرگلی میں دیکھا اور فوراً اس کا چہرہ تمتما اٹھا۔کچھ اشارے ہوئے۔ کھڑکی چوڑیوں کی کھنکناہٹ کے ساتھ بند ہوئی اور سریندر وہاں سے مخموری کی حالت میں چل دیا۔

چھت کی منڈیر پر دیوالی کے دیے دلہن کی ساڑی میں ٹکے ہوئے تاروں کی طرح چمکتے رہے۔

سرجو کمہار لاٹھی ٹیکتا ہوا آیا اور دم لینے کے لیے ٹھہر گیا۔ بلغم اس کی چھاتی میں سڑکیں کوٹنے والے انجن کی مانند پھر رہا تھا۔۔۔ گلے کی رگیں دمے کے دورے کے باعث دھونکنی کی طرح کبھی پھولتی تھیں کبھی سکڑ جاتی تھیں۔ اس نے گردن اٹھا کر جگمگ جگمگ کرتے دیوں کی طرف اپنی دھندلی آنکھوں سے دیکھا اور اسے ایسا معلوم ہوا کہ دور۔۔۔ بہت دور۔۔۔ بہت سے بچے قطار باندھے کھیل کود میں مصروف ہیں۔ سرجو کمہار کی لاٹھی منوں بھاری ہوگئی۔ بلغم تھوک کروہ پھر چیونٹی کی چال چلنے لگا۔

چھت کی منڈیر پر دیوالی کے دیے جگمگاتے رہے۔

پھر ایک مزدور آیا۔ پھٹے ہوئے گریبان میں سے اس کی چھاتی کے بال، برباد گھونسلوں کی تیلیوں کے مانند بکھر رہے تھے۔ دِیوں کی قطار کی طرف اس نے سر اٹھا کردیکھا اور اسے ایسا محسوس ہوا کہ آسمان کی گدلی پیشانی پر پسینے کے موٹے موٹے قطرے چمک رہے ہیں۔ پھر اسے اپنے گھر کے اندھیارے کا خیال آیا اور وہ ان تھرکتے ہوئے شعلوں کی روشنی، کنکھیوں سے دیکھتا ہوا آگے بڑھ گیا۔

چھت کی منڈیر پر دیوالی کے دیے آنکھیں جھپکتے رہے۔

نئے اور چمکیلے بوٹوں کی چرچراہٹ کے ساتھ ایک آدمی آیا۔ اور دیوار کے قریب سگریٹ سلگانے کے لیے ٹھہر گیا۔ اس کا چہرہ اشرفی پر لگی ہوئی مہر کی مانند جذبات سے عاری تھا۔ کالر چڑھی گردن اٹھا کر اس نے دِیوں کی طرف دیکھا اور اسے ایسا معلوم ہوا کہ بہت سی کٹھالیوں میں سونا پگھل رہا ہے۔ اس کے چرچراتے ہوئے چمکیلے جوتوں پر ناچتے ہوئے شعلوں کا عکس پڑ رہا تھا۔ وہ ان سے کھیلتا ہوا آگے بڑھ گیا۔

چھت کے منڈیر پر دیوالی کے دیے جلتے رہے۔

جو کچھ انھوں نے دیکھا، جو کچھ انھوں نے سنا، کسی کو نہ بتایا۔ ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا اور سب دیے ایک کرکے بجھ گئے۔

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse