دیر و کعبہ کو رہ گزر سمجھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیر و کعبہ کو رہ گزر سمجھے
by قربان علی سالک بیگ

دیر و کعبہ کو رہ گزر سمجھے
دل کو جو کوئی تیرا گھر سمجھے

اشک خونیں بہے تو ہم دل کو
ہدف ناوک نظر سمجھے

نالۂ غیر آتش افشاں ہے
شب وصلت کی تم سحر سمجھے

نہ اٹھا اپنے آستاں سے ہمیں
ہم تو بیٹھے ہیں اپنا گھر سمجھے

نامہ دے کر نظارہ ہے منظور
ہم تقاضائے نامہ بر سمجھے

غیر سے پوچھتے ہیں کوچۂ یار
ایسے رہزن کو راہبر سمجھے

وہ ستم کرنے آئے ہیں ایجاد
اور ہم آہ کا اثر سمجھے

صرف کرنا ہے عنصر آبی
ہم ترا گریہ چشم تر سمجھے

اس سے کیا مدعا کہوں سالکؔ
صلح کی بات کو جو شر سمجھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse