دیدۂ صرف انتظار ہے شمع

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیدۂ صرف انتظار ہے شمع
by قلق میرٹھی

دیدۂ صرف انتظار ہے شمع
میری حالت کی یادگار ہے شمع

نہیں دل میں کسی کے سوز و گداز
کہ تماشاۓ روزگار ہے شمع

پئے جنبش سدا تڑپتی ہے
تپش ناتواں شکار ہے شمع

رخ روشن ہے نور بینائی
چشم عشاق کا غبار ہے شمع

روز تیرہ میں بد نما خورشید
شب روشن میں تیرہ کار ہے شمع

یاد گل رخ سے پھول جھڑتے ہیں
کس بشاشت سے نو بہار ہے شمع

خاک ناسور دل بھرے اس کا
زخمیٔ گریہ ہائے زار ہے شمع

حسن دیوانہ سب کو کرتا ہے
اپنے ہی آپ پر نثار ہے شمع

صبح ہوتے ہی ٹمٹماتی ہے
آپ کی چشم پر خمار ہے شمع

کیوں نہ روئے نہ کس طرح سے جلے
کہ فغانی راز دار ہے شمع

نہیں بجھتی لگی ہوئی جی کی
شعلۂ جان سوگوار ہے شمع

ہے ادھر داغ برق پروانہ
اور ادھر چشم ابر بار ہے شمع

حسن بھی ہے مآل کار وبال
بزم در بزم کیا ہے خار ہے شمع

جھانکنا پردے سے بری خو ہے
خود بہ خود آپ شرمسار ہے شمع

شب تنہائی اور تو اور یہ
اے قلقؔ تیری غم گسار ہے شمع

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse