دیدۂ حیراں نے تماشا کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیدۂ حیراں نے تماشا کیا
by مومن خان مومن

دیدۂ حیراں نے تماشا کیا
دیر تلک وہ مجھے دیکھا کیا

ضبط فغاں گو کہ اثر تھا کیا
حوصلہ کیا کیا نہ کیا کیا کیا

آنکھ نہ لگنے سے شب احباب نے
آنکھ کے لگ جانے کا چرچا کیا

مر گئے اس کے لب جاں بخش پر
ہم نے علاج آپ ہی اپنا کیا

بجھ گئی اک آہ میں شمع حیات
مجھ کو دم سرد نے ٹھنڈا کیا

غیر عیادت سے برا مانتے
قتل کیا آن کے اچھا کیا

ان سے پری وش کو نہ دیکھے کوئی
مجھ کو مری شرم نے رسوا کیا

زندگیٔ ہجر بھی اک موت تھی
مرگ نے کیا کار مسیحا کیا

پان میں یہ رنگ کہاں آپ نے
آپ مرے خون کا دعویٰ کیا

جور کا شکوہ نہ کروں ظلم ہے
راز مرا صبر نے افشا کیا

کچھ بھی بن آتی نہیں کیا کیجیے
اس کے بگڑنے نے کچھ ایسا کیا

جائے تھی تیری مرے دل میں سو ہے
غیر سے کیوں شکوۂ بے جا کیا

رحم فلک اور مرے حال پر
تو نے کرم اے ستم آرا کیا

سچ ہی سہی آپ کا پیماں ولے
مرگ نے کب وعدۂ فردا کیا

دعویٔ تکلیف سے جلاد نے
روز جزا قتل پھر اپنا کیا

مرگ نے ہجراں میں چھپایا ہے منہ
لو منہ اسی پردہ نشیں کا کیا

دشمن مومنؔ ہی رہے بت سدا
مجھ سے مرے نام نے یہ کیا کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse