دیدۂ اشک بار ہے اپنا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیدۂ اشک بار ہے اپنا
by میراجی

دیدۂ اشک بار ہے اپنا
اور دل بے قرار ہے اپنا

رشک صحرا ہے گھر کی ویرانی
یہی رنگ بہار ہے اپنا

چشم گریاں سے چاک داماں سے
حال سب آشکار ہے اپنا

ہائے ہو میں ہر ایک کھویا ہے
کون یاں غم گسار ہے اپنا

صرف وہ ایک سب کے ہیں مختار
ان پہ کیا اختیار ہے اپنا

بزم سے ان کی جب سے نکلا ہے
دل غریب الدیار ہے اپنا

ان کو اپنا بنا کے چھوڑیں گے
بخت اگر سازگار ہے اپنا

پاس تو کیا ہے اپنے پھر بھی مگر
اس پہ سب کچھ نثار ہے اپنا

ہم کو ہستی رقیب کی منظور
پھول کے ساتھ خار ہے اپنا

ہے یہی رسم مے کدہ شاید
نشہ ان کا خمار ہے اپنا

جیت کے خواب دیکھتے جاؤ
یہ دل بد قمار ہے اپنا

کیا غلط سوچتے ہیں میراجیؔ
شعر کہنا شعار ہے اپنا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse