دیدہ ہے کہیں دل کہیں اور جان کہیں اور

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیدہ ہے کہیں دل کہیں اور جان کہیں اور
by منتظر لکھنوی

دیدہ ہے کہیں دل کہیں اور جان کہیں اور
بیٹھا تو ہوں یاں پر ہے مرا دھیان کہیں اور

کیوں سیر گلستاں کو ہم اس کوچہ سے جاویں
لگتا ہی نہیں دل کسی عنوان کہیں اور

دنیا میں گو مشکل کوئی آساں نہیں ہوتی
شاید کہ ہو مشکل مری آسان کہیں اور

فریاد کو جی چاہے تو جز کوچۂ جاناں
جانا نہ کبھی اے دل نادان کہیں اور

ہے طرفہ کہ تجھ سا نہ مرا دوست ہو ناصح
اور جاؤں سلانے میں گریبان کہیں اور

جس شہر میں ہم رہتے ہیں ہے جائے طلسمات
ایسی تو پری ہوں گی نہ انسان کہیں اور

اے منتظرؔ اس زلف کا تو چھیڑ نہ قصہ
ہو جاوے ترا دل نہ پریشان کہیں اور

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse