دیدار کی ہوس ہے نہ شوق وصال ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیدار کی ہوس ہے نہ شوق وصال ہے
by جلیل مانکپوری

دیدار کی ہوس ہے نہ شوق وصال ہے
آزاد ہر خیال سے مست خیال ہے

کہہ دو یہ کوہ کن سے کہ مرنا نہیں کمال
مر مر کے ہجر یار میں جینا کمال ہے

فتویٰ دیا ہے مفتیٔ ابر بہار نے
توبہ کا خون بادہ کشوں کو حلال ہے

آنکھیں بتا رہی ہیں کہ جاگے ہو رات کو
ان ساغروں میں بوئے شراب وصال ہے

برساؤ تیر مجھ پہ مگر اتنا جان لو
پہلو میں دل ہے دل میں تمہارا خیال ہے

آنکھیں لڑا کے ان سے ہم آفت میں پڑ گئے
پلکوں کی ہر زبان پہ دل کا سوال ہے

بت کہہ دیا جو میں نے تو اب بولتے نہیں
اتنی سی بات کا تمہیں اتنا خیال ہے

میں دامن نیاز میں اشک چکیدہ ہوں
کوئی اٹھا کے دیکھ لے اٹھنا محال ہے

پوچھا جو ان سے جانتے ہو تم جلیلؔ کو
بولے کہ ہاں وہ شاعر نازک خیال ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse