دیت اس قاتل بے رحم سے کیا لیجئے گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیت اس قاتل بے رحم سے کیا لیجئے گا
by شیر محمد خاں ایمان

دیت اس قاتل بے رحم سے کیا لیجئے گا
اپنی ہی آنکھوں سے اب خون بہا لیجئے گا

پھر نہیں ہونے کی تقصیر تو ایسی ہرگز
اب کسی طرح میری جان بچا لیجئے گا

اس قدر سنگ دلی تم کو نہیں ہے لازم
کسی مظلوم کی گاہے تو دعا لیجئے گا

لخت دل خاک میں دیتا ہے کوئی بھی رہنے
گر پڑے اشک تو آنکھوں سے اٹھا لیجئے گا

پھر نہ پچھتاو کہیں بعد مرے جانے کے
گالیاں اور ہوں باقی تو سنا لیجئے گا

روٹھ کر جائے کوئی اپنے سے پیارے تو وہیں
چاہیئے آپ گلے پڑ کے منا لیجئے گا

اپنے مشتاق کو لازم ہے کہ گاہے ماہے
غیر کی آنکھ بچا گھر میں بلا لیجئے گا

ایک مدت ہوئی کچھ حرف و حکایت ہی نہیں
جی میں ہے آج تو باتوں میں لگا لیجئے گا

کسی جلسے میں جو ایمانؔ کہو تو جانیں
گھر میں یوں بیٹھے ہوئے شعر بنا لیجئے گا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse