دیتا ہے مجھ کو چرخ کہن بار بار داغ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیتا ہے مجھ کو چرخ کہن بار بار داغ
by رنجور عظیم آبادی

دیتا ہے مجھ کو چرخ کہن بار بار داغ
اف ایک میرا سینہ ہے اس پر ہزار داغ

دیتے ہیں میرے سینے میں کیا ہی بہار داغ
کھائے نہ ان کو دیکھ کے کیوں لالہ زار داغ

لالہ کرے گا دل کی مرے کیا برابری
اس پر ہے ایک داغ یہاں بے شمار داغ

دنیا کے سارے صدمے ہیں کم ہجر یار سے
دے مدعی کو بھی نہ یہ پروردگار داغ

رکھتا ہے عشق لالہ رخاں دل میں وہ نہاں
سینے پہ ماہتاب کے ہے آشکار داغ

ظلمت سے دی نجات دل داغ دار نے
روشن مثال شمع ہے زیر مزار داغ

ہر دم نہ کیوں لگائے رکھیں سینے سے اسے
اک ماہ رو کے عشق کی ہے یادگار داغ

قاتل مرے لہو نے بھی کیا گل کھلائے ہیں
دامن پہ تیرے دیتے ہیں کیا ہی بہار داغ

جو ظلم چاہے رکھ دل رنجورؔ پر روا
دے تو مگر اسے نہ جدائی کا یار داغ

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse