دیتا ہوں دل جسے وہ کہیں بے وفا نہ ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیتا ہوں دل جسے وہ کہیں بے وفا نہ ہو
by جمیلہ خدا بخش

دیتا ہوں دل جسے وہ کہیں بے وفا نہ ہو
یہ عشق میرے واسطے شاید قضا نہ ہو

دور اپنے در سے تم نہ کرو اے صنم اسے
جس کو ذرا جہاں میں کہیں آسرا نہ ہو

راحت سے مجھ کو نیند تو آئی مزار میں
پہلو کو میرے چیر کے دل چل بسا نہ ہو

مرنے کے بعد بھی یہی دھڑکا رہا کیا
مل کر صبا سے خاک ہماری ہوا نہ ہو

شکوہ کروں تو یار کا پر خوف ہے یہی
نازک مزاج ہے وہ یہ سن کر خفا نہ ہو

پردے سے دل کے بات جو کرتا ہے مجھے سے اب
آتا ہے یہ خیال کہیں خود خدا نہ ہو

رنگت ہے زرد رخ کی تو خشکی لبوں پر ہے
آثار عشق کے ہیں کہیں دل لگا نہ ہو

مر جاؤں اے جمیلہؔ اگر عشق غوث میں
ممکن نہیں کہ خاک لحد کیمیا نہ ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse