دیتا نہیں دل لے کے وہ مغرور کسی کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیتا نہیں دل لے کے وہ مغرور کسی کا
by میر محمدی بیدار

دیتا نہیں دل لے کے وہ مغرور کسی کا
سچ ہے کہ نہ ظالم سے چلے زور کسی کا

آرائش حسن آئینہ رخ کرتے ہو ہر دم
لینا ہے مگر دم تمہیں منظور کسی کا

بے وجہ نہیں تابش ارباب صفا کو
ہے جلوہ گر اس آئینہ میں نور کسی کا

آتا ہے نظر یاں جو ہر ایوان شکستہ
یک وقت میں تھا خانۂ معمور کسی کا

وہ شوخ پری رشک بکف تیغ سیہ مست
آتا ہے کئے شیشۂ دل چور کسی کا

روکوں میں اب اس کو سر راہے کبھی آ کے
اتنا تو میں رکھوں نہیں مقدور کسی کا

بیدارؔ مجھے یاد اسی کی ہے شب و روز
نے بات کسی کی ہے نے مذکور کسی کا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.