دیا ہے دل اگر اس کو بشر ہے کیا کہئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیا ہے دل اگر اس کو بشر ہے کیا کہئے
by مرزا غالب

دیا ہے دل اگر اُس کو، بشر ہے، کیا کہیے
ہوا رقیب، تو ہو، نامہ بر ہے، کیا کہیے

یہ ضد کہ آج نہ آوے، اور آئے بِن نہ رہے
قضا سے شکوہ ہمیں کِس قدر ہے، کیا کہیے!

رہے ہے یوں گِہ و بے گہِ، کہ کُوئے دوست کو اب
اگر نہ کہیے کہ دشمن کا گھر ہے، کیا کہیے!

زہے کرشمہ کہ یوں دے رکھا ہے ہم کو فریب
کہ بن کہے ہی انہیں سب خبر ہے، کیا کہیے

سمجھ کے کرتے ہیں، بازار میں وہ پُرسشِ حال
کہ یہ کہے کہ، سرِ رہگزر ہے، کیا کہیے؟

تمہیں نہیں ہے سرِ رشتۂ وفا کا خیال
ہمارے ہاتھ میں کچھ ہے، مگر ہے کیا؟ کہیے!

اُنہیں سوال پہ زعمِ جنوں ہے، کیوں لڑیے
ہمیں جواب سے قطعِ نظر ہے، کیا کہیے؟

حَسد، سزائے کمالِ سخن ہے، کیا کیجے
سِتم، بہائے متاعِ ہُنر ہے، کیا کہیے!

کہا ہے کِس نے کہ غالبؔ بُرا نہیں، لیکن
سوائے اس کے کہ آشفتہ سر ہے، کیا کہیے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse