دیا جب جام مے ساقی نے بھر کے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیا جب جام مے ساقی نے بھر کے
by حفیظ جونپوری

دیا جب جام مے ساقی نے بھر کے
تو پچھتائے بہت ہم توبہ کر کے

لپٹ جاؤ گلے سے وقت آخر
کہ پھر جیتا نہیں ہے کوئی مر کے

وہاں سے آ کے اس کی بھی پھری آنکھ
وہ تیور ہی نہیں اب نامہ بر کے

کوئی جب پوچھتا ہے حال دل کا
تو رو دیتے ہیں ہم اک آہ بھر کے

گلوں کے عشق میں دے جان بلبل
ارے یہ حوصلے ایک مشت پر کے

خدا محفوظ رکھے ان کی ضد سے
جو کہتے ہیں دکھا دیتے ہیں کر کے

رہیں گے خاک میں ہم کو ملا کر
ترے انداز اس نیچی نظر کے

دماغ اپنا نہ کیوں کر عرش پر ہو
یہ سمجھو تو گدا ہیں کس کے در کے

ہوئی ہے قید سے بدتر رہائی
کیا آزاد اس نے پر کتر کے

اٹھے جاتے ہیں لو دنیا سے ہم آج
مٹے جاتے ہیں جھگڑے عمر بھر کے

حفیظؔ اب نالہ و فریاد چھوڑو
کوئی دن یوں بھی دیکھو صبر کر کے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse