دہلی کی آخری شمع/ترتیب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

ترتیب بشعر و سخن مجلس آراستند

نشستند و گفتند و برخاستند

میں تاریخ ابو الفداء کے ترجمے میں ایسا گتھ گیا کہ سات آٹھ روز تک گھر سے باہر ہی نہ نکلا، نواب زین العابدین خاں کے شوق کی یہ حالت تھی کہ باوجود کمزوری و نقاہت کے روز صبح ہی سے جو باہر نکلتے تو کہیں رات کے آٹھ نو بجے جا کر گھر میں ان کی صورت دکھائی دیتی، اس لیے ان سے ملنا نہیں ہوا کہ کچھ حال پوچھتا۔ بہرحال یہ آٹھ دن آنکھ بند کرتے گزر گئے اور مشاعرے کی تاریخ آ ہی گئی۔ ۱۴؍ رجب کو شام کے ساڑھے سات بجے کے قریب میں بھی مشاعرے میں جانے کو تیار ہوا۔ نواب صاحب کو دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ صبح سے جو گئے ہیں تو اب تک واپس نہیں آئے۔ گھر سے جو نکلا تو بازار میں بڑی چہل پہل دیکھی۔ ہر شخص کی زبان پر مشاعرے کا ذکر تھا، کوئی کہتا: یہ میاں کریم الدین کون ہیں؟ کوئی کہتا: اس سے کیا، کوئی ہوں مگر انتظام ایسا کیا ہے کہ دیکھ کر جی خوش ہوتا ہے۔ میں یہ باتیں سنتا اور دل میں خوش ہوتا ہوا قاضی کے حوض پر آیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ سڑک کے دونوں جانب ٹٹیاں لگا کر اور ان میں روشنی کے گلاس جما کر رات کو دن کر دیا ہے۔ سڑک پر خوب چھڑکاؤ ہے، کٹورا بج رہا ہے۔ مبارک النساء بیگم کی حویلی کے بڑے پھاٹک کو گلاسوں، قمقموں اور قندیلوں سے سجا کر گلزارِ آتشیں کر دیا ہے۔ صدر دروازے سے اندر کی دہلیز تک روشنی کا یہ عالم ہے کہ آنکھوں میں چکا چوند آتی ہے۔ مکان کے اندر جو قدم رکھا تو ہوش جاتے رہے۔ یا اللہ! یہ میرا ہی مکان ہے یا کسی شاہی محل میں آ گیا ہوں! گھڑی گھڑی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھتا اور کہتا: واہ میاں عارفؔ واہ! تم نے تو کمال کر دیا۔ کہاں وہ بیچارے کریم الدین کا مکان اور کہاں یہ بادشاہی ٹھاٹھ! واقعی تمھارا کہنا صحیح تھا کہ اگر دو ہزار میں بھی کام نکل جائے تو یہ سمجھو کہ کچھ نہیں اٹھا۔

چونے میں ابرک ملا کر مکان میں قلعی کی گئی تھی جس کی وجہ سے در و دیوار پڑے جگ مگ جگ مگ کر رہے تھے۔ صحن کو بھروا کر تختوں کے چوکے اس طرح بچھائے تھے کہ چبوترہ اور صحن برابر ہو گئے تھے۔ تختوں پر دری، چاندنی کا فرش، اس پر قالینوں کا حاشیہ، پیچھے گاؤ تکیوں کی قطار۔ جھاڑوں، فانوسوں، ہانڈیوں، دیوار گیریوں، قمقموں، چینی قندیلوں اور گلاسوں کی وہ بہتات تھی کہ تمام مکان بقعۂ نور بن گیا تھا۔ جو چیز تھی، خوبصورت اور جو شے تھی، قرینے سے۔ سامنے کی صف کے بیچوں بیچ چھوٹا سا سبز مخمل کا کارچوبی شامیانہ، گنگا جمنی چوبوں پر سبز ہی ریشمی طنابوں سے اِستادہ تھا۔ اس کے نیچے سبز مخمل کی کارچوبی مسند، پیچھے سبز کارچوبی گاؤ تکیہ، چاروں چوبوں پر چھوٹے چھوٹے آٹھ چاندی کے فانوس کسے ہوئے۔ فانوسوں کے کنول بھی سبز۔ چوبوں کے سنہری کلسوں سے لگا کر نیچے تک موٹے موٹے موتیا کے گجرے سہرے کی طرح لٹکے ہوئے، بیچ کی لڑیوں کو سمیت کر کلابتونی ڈوریوں سے، جن کے کونوں پر مقیش کے گپھے تھے، اس طرح چوبوں پر کس دیا گیا تھا کہ شامیانے کے چاروں طرف پھولوں کے دروازے بن گئے تھے۔ دیواروں میں جہاں کھونٹیاں تھیں وہاں کھونٹیوں پر اور جہاں کھونٹیاں نہیں تھیں، وہاں کیلیں گاڑ کر پھولوں کے ہار لٹکا دیے تھے۔ اس سرے سے لگا کر اس سرے تک سفید چھت گیری جس کے حاشیے سبز تھے، کھنچی ہوئی تھی۔ چھت گیری کے بیچوں بیچ موتیا کے ہار لٹکا کر لڑیوں کو چاروں طرف اس طرح کھینچ دیا گیا تھا کہ پھولوں کی چھتری بن گئی تھی۔ ایک صحنچی میں پانی کا انتظام تھا۔ کورے کورے گھڑے رکھے تھے اور شُورے میں جَست کی صراحیاں لگی ہوئی تھیں۔ دوسری صحنچی میں پان بن رہے تھے۔ باورچی خانے میں حقوں کا تمام سامان سلیقے سے جما ہوا تھا۔ جا بہ جا نوکر صاف ستھرا لباس پہنے دست بستہ مودب کھڑے تھے۔ تمام مکان مشک و عنبر اور اگر کی خوشبو سے پڑا مہک رہا تھا۔ قالینوں کے سامنے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر حقوں کی قطار تھی۔ حقے ایسے صاف ستھرے تھے کہ معلوم ہوتا تھا ابھی دکان پر سے اٹھ آئے ہیں۔ حقوں کے بیچ میں جو کچھ جگہ چھوٹ گئی تھی، وہاں چھوٹی چھوٹی تپائیاں رکھ کر ان پر خاصدان رکھ دیے تھے۔ خاصدانوں میں لال قند کی صافیوں میں لپٹے ہوئے پان۔ گلوریوں کو صافیوں میں اس طرح جمایا تھا کہ بیچ میں ایک تہہ پھولوں کی آ گئی تھی۔ خاصدانوں کے برابر چھوٹی چھوٹی کشتیاں، ان میں الائچیاں، چکنی ڈلیاں اور بُن دھنیا۔ مسند کے سامنے چاندی کے دو شمع دان، اندر کافوری بتیاں، اوپر ہلکے سبز رنگ کے چھوٹے کنول۔ شمع دانوں کے نیچے چاندی کے چھوٹے لگن، لگنوں میں کیوڑا۔ غرض کیا کہوں، ایک عجیب تماشا تھا۔ میں تو الف لیلہ کا ابو الحسن ہو گیا۔ جدھر نظر جاتی ادھر ہی کی ہو رہتی۔

میں اس تماشے میں محو تھا کہ لوگوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ سب سے پہلے مرزا کریم الدین رساؔ آئے۔ یہ سلاطین زادے ہیں۔ کوئی ستر برس کے پیٹے میں ہیں۔ استعدادِ علمی تو کم ہے، مگر شاعری میں اپنے برابر کسی کو نہیں سمجھتے۔ بہت رحم دل، خوش خلق اور سادہ مزاج ہیں، دغل فصل نام کو نہیں ہے۔ ملاح کہا کرتے ہیں کہ ’’کشتی میں چڑھے سب سے پہلے اور اترے سب سے پیچھے‘‘ انھوں نے اس مقولے کو مشاعرے سے متعلق کر دیا ہے۔ مشاعرے میں سب سے پہلے آتے ہیں اور جب تک ایک ایک کر کے سب نہیں چلے جاتے، یہ اٹھنے کا نام نہیں لیتے۔ ایک روز کا واقعہ ہے کہ مشاعرہ ہو رہا تھا، بڑے زور سے ابر آیا، سب نے جلدی جلدی مشاعرہ ختم کیا، لوگ اپنے اپنے گھر گئے لیکن یہ ٹھہرے اپنی وضع کے پابند، جب تک سب نہ جا چکے اپنی جگہ سے نہ اٹھے۔ ہاں گھڑی گھڑی جھک کر آسمان کو دیکھ لیتے تھے۔ اتنے میں موسلا دھار مینہ برسنا شروع ہوا۔ ایسا برسا کہ جل تھل بھر گئے۔ کہیں دو گھنٹے کے بعد خدا خدا کر کے ذرا مینہ تھما تو یہ بھی اٹھے، مگر ایسا اندھیرا گھپ تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ نہیں سوجھتا تھا۔ مالکِ مکان نے ایک نوکر کو قندیل دے کر ساتھ کر دیا۔ گلیوں میں ٹخنوں ٹخنوں پانی تھا، ان بچارے کے پاؤں میں زردوزی کا قیمتی جوتا، کیچڑ میں پاؤں رکھیں تو کیسے رکھیں۔ آخر چپکے سے نوکر سے کہا: تو اپنا جوتا مجھے دے دے۔ اس کا جوتا کیا تھا، لتیڑے تھے، وہی گھسیٹتے ہوئے چلے، اپنا جوتا بغل میں دبا لیا۔ قلعے پہنچ کر ایک نیا جوتا نوکر کو دیا اور کہا: میاں تو نے آج میرے ساتھ ایسا احسان کیا ہے کہ تمام عمر نہ بھولوں گا۔ جب کبھی تجھے کوئی ضرورت ہو تو میرے پاس آ جایا کیجیو۔ آگے چل کر اس بد معاش نے ان کو بہت دق کیا۔ اول تو اس راز کا ڈھنڈورا پیٹ دیا، دوسرے ہر تیسرے چوتھے ان سے ایک دو روپے مار لاتا، مگر انھوں نے بھی ’’نا‘‘ نہیں کی، جب جاتا کچھ نہ کچھ سلوک ضرور کرتے۔

نواب زین العابدین خاں صاحب نے بڑھ کر لبِ فرش ان کو لیا اور پوچھا: ہیں صاحبِ عالم! میاں حیاؔ آپ کے ساتھ نہیں آئے؟ مرزا رحیم الدین حیاؔ ان کے بڑے بیٹے ہیں، لیکن تھوڑے دنوں سے باپ بیٹے میں کچھ صفائی نہیں رہی ہے۔ نواب صاحب کا اتنا کہنا تھا کہ صاحبِ عالم ناسور کی طرح پھوٹ بہے، کہنے لگے: نواب! وہ بھلا میرے ساتھ کیوں آتے، جب سے بنارس ہو کر آئے ہیں ان کا تو رنگ ہی بدل گیا۔ میں بچارہ تو کس گنتی میں ہوں، وہ کسی کو بھی اب خاطر میں نہیں لاتے۔ پالا پوسا، بڑا کیا، پڑھایا لکھایا، شاعر بنایا، بٹیریں لڑانا سکھایا اور تخت کی قسم، وہ وہ نسخے بٹیروں کے بتائے ہیں کہ قلعہ تو قلعہ، ہندوستان بھر میں کسی کے فرشتے خاں کو بھی معلوم نہ ہوں گے اور اب وہی صاحب زادے صاحب ہیں کہ استاد ماننا تو در کنار، مجھ کو باپ بھی کہتے شرماتے ہیں۔ ہاں بھئی کیوں نہ ہو، تیرھویں صدی ہے۔ ان کو بنارس بھیج کر میں تو مصیبت میں آ گیا۔ ایک نقصانِ مایہ، دوسرے شمَاتَتِ ہمسایہ۔ بیٹا ہاتھ سے گیا تو گیا، دن رات کی دانتا کلکل اور مول لے لی۔ یہ باتیں کرتے کرتے نواب صاحب نے میاں رساؔ کو لے جا کر ایک جگہ بٹھا دیا۔

ابھی ان سے فارغ نہ ہوئے تھے کہ شہزادوں کا ایک گروہ حافظ عبد الرحمان احسانؔ کو جھرمٹ میں لیے آ پہنچا۔ بھلا دلی شہر میں کون ہے جو ’’حافظ جیو‘‘ کو نہ جانتا ہو۔ جگت استاد ہیں۔ پہلے تو قلعے کا قلعہ ان کا شاگرد تھا، مگر استاد ذوقؔ کے قلعے میں قدم رکھتے ہی ان کا زور ٹوٹا۔ یہ بھی زمانے کی آنکھیں دیکھے ہوئے تھے اور شاہ نصیر سے ٹکّر لڑ چکے تھے، اس بڑھاپے میں بھی خم ٹھونک کر سامنے آ گئے اور مرتے دم تک مقابلے سے نہ ہٹنا تھا نہ ہٹے۔ کوئی نوے برس کی عمر تھی۔ کمر دہری ہونے سے قد کمان بن گیا تھا۔ اپنے زمانے کے بلعم باعور تھے لیکن غزل اس کڑاکے سے پڑھتے تھے کہ تمام مشاعرے پر چھا جاتے تھے۔ اِن کی استادی کا سکہ ایک زمانے سے دلّی پر بیٹھا ہوا تھا۔ پہلے مرزا نیلی کے استاد ہوئے، رفتہ رفتہ عالم بادشاہ غازی نوّر اللہ مرقدہ تک رسائی ہو گئی، وہ اِن کو ’’حافظ جیو‘‘ کہتے تھے، اس لیے اسی نام سے تمام قلعے میں مشہور تھے۔ مصرعے پر مصرع لگانے میں کمال تھا اور سند ایسی تڑاخ سے دیتے تھے کہ معترض منہ دیکھتے رہ جاتے تھے۔ ایک روز بادشاہ سلامت نے مصرع کہا:

صبح بھی بوسہ تو دیتا مجھے اے ماہ نہیں

اِنھوں نے فوراً عرض کی:

نا مناسب ہے میاں، وقتِ سحر گاہ نہیں

کسی نے ’’وقتِ سحر گاہ‘‘ کی ترکیب پر اعتراض کیا، انھوں نے جھٹ صائبؔ کا یہ شعر پڑھا:

آدمی پیر چو شد، حرص جواں می گردد

خواب در وقتِ سحر گاہ گراں می گردد

اور معترض صاحب اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔

بڑے دبلے پتلے آدمی تھے، رنگ بہت کالا تھا۔ شاہ نصیر نے اسی رنگ کا خاکہ اس طرح اڑایا ہے:

اے خالِ رخِ یار! تجھے ٹھیک بناتا

پر چھوڑ دیا حافظِ قرآن سمجھ کر

نواب صاحب نے ان سب کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیا اور اپنی اپنی جگہ لا کر بٹھایا۔ ابھی ان کو بٹھانے سے فارغ نہ ہوئے تھے کہ منشی محمد علی تشنہؔ چُم ننگے، نشے میں چور، جھومتے جھامتے اندر آئے۔ نوجوان آدمی ہیں مگر عجیب حال ہے، کبھی برہنہ پڑے پھرتے ہیں، کبھی کپڑے پہن کر خاصے بھلے آدمی بن جاتے ہیں۔ کسی کے شاگرد نہیں اور پھر سب کے شاگرد ہیں۔ کبھی حکیم آغا جان عیشؔ سے اصلاح لینے لگتے ہیں، کبھی استاد ذوقؔ کے پاس اصلاح کے لیے غزل لے آتے ہیں۔ ذہن بلا کا پایا ہے، لاکھوں شعر زبان کی نوک پر ہیں۔ شعر سنا اور یاد ہوا۔ اکثر ایسا بھی ہوا ہے کہ کسی کی غزل سنی اور یاد کر لی اور مشاعرے میں خود اپنے نام سے وہ غزل پڑھ ڈالی اور وہ بچارہ منہ دیکھتا رہ گیا۔ نواب صاحب آگے بڑھے، پوچھا: منشی جی! یہ کیا رنگ ہے؟ کہنے لگے: اصلی رنگ۔ مشاعرہ کب شروع ہوتا ہے۔ نواب صاحب نے کہا: ابھی شروع ہوتا ہے، آپ بیٹھیے تو سہی۔ خیر ایک کونے میں جا کر بیٹھ گئے، میاں عارفؔ نے اُن پر ایک دوشالہ لا کر ڈال دیا۔ انھوں نے اٹھا کر پھینک دیا۔ عرض جس طرح ننگے آئے تھے، اسی طرح بے تکلف بیٹھے رہے۔

اس کے بعد تو لوگوں کے آنے کا تانتا بندھ گیا۔ جو آتا، اس کا استقبال نواب صاحب کرتے اور لا لا کر بٹھاتے۔ حکیم مومن خاں آئے، ان کے ساتھ آزردہؔ، شیفتہؔ، صہبائی اور مولوی مملوک العلی تھے۔ مولوی صاحب مدرسۂ دہلی میں مدرسِ اول ہیں۔ عجیب با کمال آدمی ہیں۔ مدرسے میں ان کی ذاتِ با برکات سے وہ فیض ہوا ہے کہ شاید ہی کسی زمانے میں کسی استاد سے ہوا ہو۔ بہت پابندِ شرع ہیں، اس لیے خود شعر نہیں کہتے، مگر سمجھتے ایسا ہیں کہ ان کا کسی شعر کی تعریف کر دینا گویا اس کو دوام کی سند دے دینا ہے۔ کوئی ساٹھ سال کا سِن ہے۔ رہنے والے تو نانوتے کے ہیں، مگر مدتوں سے دہلی میں آ رہے ہیں۔ دن رات پڑھنے پڑھانے سے کام ہے۔ مشاعروں میں کم جاتے ہیں، یہاں شاید مولانا صہبائی ان کو اپنے ساتھ گھسیٹ لائے۔ تھوڑے ہی دن ہوئے، بے چارے پابندی شرع اور تقوے کی وجہ سے چکر میں آ گئے تھے۔ ہوا یہ کہ رزیڈنٹ بہادر مدرسے کے معائنے کو آئے۔ ان کے علم اور رتبے کے خیال سے ہاتھ ملایا۔ جب تک صاحب بہادر وہاں رہے، انھوں نے ہاتھ کو جسم سے اس طرح الگ رکھا جیسے کوئی نجس چیز کو دور رکھتا ہے۔ صاحب کے جاتے ہی بہت احتیاط سے ہاتھ کئی بار دھویا۔

کسی نے جا کر صاحب سے یہ بات لگا دی۔ ان کو بہت غصہ آیا کہ ہم نے تو ہاتھ ملا کر ان کی عزت افزائی کی، انھوں نے اس طرح ہماری توہین کی۔ غرض بڑی مشکل سے معاملہ رفع دفع ہوا۔

مولوی صاحب میرے بھی استاد تھے۔ میں بھی آگے بڑھا، آداب کیا، فرمانے لگے: میاں کریم الدین! میں تم کو ایسا نہیں سمجھتا تھا۔ تم نے دہلی والوں کو مات کر دیا۔ سبحان اللہ! سبحان اللہ! کیا انتظام ہے، دیکھ کر دل خوش ہو گیا، خدا تمھیں اس سے زیادہ حوصلہ دے۔ میں نے عرض کی: مولوی صاحب! بھلا میں کیا اور میری بساط کیا! یہ سب کیا دھرا نواب زین العابدین خاں کا ہے۔ فرمانے لگے: بھئی یہ بھی اچھی ہوئی۔ وہ کہیں کہ سارا انتظام کریم الدین خاں کا ہے، تم کہو کہ نواب صاحب کا ہے، چلو:

من ترا حاجی بگویم، تو مرا حاجی بگو

ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ مرزا نوشہ پالکی میں سے اترے۔ نیرؔ، علائیؔ، سالکؔ اور حزیںؔ ان کے ہمراہ تھے۔ مرزا غالبؔ آتے ہی مومن خاں کی طرف بڑھے، مصافحہ کیا اور کہا: بھئی حکیم صاحب! آج محمد ناصر جان محزوںؔ کا عظیم آباد سے خط آیا تھا، تم کو بہت بہت سلام لکھا ہے۔ معلوم نہیں کہ کیوں ایکا ایکی پٹنے چلے گئے۔ خواجہ میر دردؔ کے پوتے ہو کر ان کا دہلی چھوڑنا ہم کو تو پسند نہیں آیا، اب یاروں کو روتے ہیں۔ دیکھنا کیا درد بھرا شعر لکھا ہے:

نہ تو نامہ ہی نہ پیغامِ زبانی آیا

آہ محزوںؔ! مجھے یارانِ وطن بھول گئے

ارے بھئی رات تو خاصی آ گئی ہے، ابھی تک میاں ابراہیم نہیں آئے، آخر یہ مشاعرہ شروع کب ہو گا؟ حکیم صاحب کچھ جواب دینے ہی والے تھے کہ دروازے کے پاس سے ’’السلام علیکم‘‘ کی آواز آئی۔ مولانا صہبائی نے کہا: اے لیجیے مرزا صاحب! وہ استاد کے نشان کے ہاتھی حافظ ویرانؔ صاحب آ گئے اور وہ آپ کے دوست ہدہد بھی ساتھ ہیں۔ دیکھیے آج کس کے چونچ مارتے ہیں۔ میاں ہدہدؔ کا نام عبد الرحمن ہے، پورب کے رہنے والے ہیں۔ دہلی میں آ کر حکیم آغا جان عیشؔ کے ہاں ٹھہر گئے ہیں، ان کے بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ حکیم صاحب ہی کے مشورے سے ہدہد تخلص اختیار کیا، انہی کی تجویز سے چُگی ڈاڑھی رکھی۔ سر منڈا کر نکّو عمامہ باندھا اور اس طرح خاصے کھُٹ بڑھئی ہو گئے۔ انہی کے ذریعے سے دربار میں پہنچے اور ’’طائر الاراکین‘‘، ’’شہپر الملک‘‘، ’’ہدہد الشعرا‘‘، ’’منقار جنگ بہادر‘‘ خطاب پایا۔ شروع شروع میں تو ان کے ظریفانہ کلام سے مشاعرہ چمک جاتا تھا، مگر بعد میں انھوں نے استادانِ فن پر حملے شروع کر دیے۔ کہتے تو یہ ہیں کہ حکیم صاحب کے اشارے سے ایسا کیا، لیکن کچھ بھی ہو، آخر سب کو ان سے کچھ نفرت سی ہو گئی اور بجائے دوسروں کا مذاق اڑانے کے خود ان کا مذاق اڑ جاتا تھا۔ حکیم صاحب علانیہ تو ان کی مدد کر نہیں سکتے تھے، خود ان میں اتنی قابلیت نہ تھی کہ جو دہلی والوں کی پھبتیوں کو سنبھال سکتے، اس لیے تھوڑی ہی دیر میں ٹھنڈے ہو کر رہ جاتے۔ مرزا نوشہ اور حکیم مومن خاں کے ہمیشہ منہ آتے تھے، اسی لیے مرزا نوشہ، مولانا صہبائی کے منہ سے ’’آپ کے دوست‘‘ کا لفظ سن کر مسکرائے اور کہا: بھئی میں تو ان کے منہ کیوں لگنے لگا، مگر آج دیکھا جائے گا، ’’ہر فرعونے را موسیٰ‘‘۔ سنتا ہوں کہ ہمارے میر صاحب، مولوی ہدہد کی شان میں آج کچھ فرمانے والے ہیں۔ ان کے سامنے اگر یہ ’’شہبازِ سخن‘‘ ٹک گئے تو میں سمجھوں گا کہ بڑا کام کیا۔ غرض یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ استاد ذوقؔ بھی اندر آ گئے۔ تمام قلعہ ان کے ساتھ آیا تھا۔ صاحب سلامت کر کے سب اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے۔ قلعے والوں اور ان لوگوں میں جن کا تعلق قلعے سے ہے، سلام کرنے کا کچھ عجیب طریقہ ہے۔ سیدھے کھڑے ہو کر، دایاں ہاتھ اس طرح کان تک لے جاتے ہیں جس طرح کوئی نماز کی نیت باندھتا ہے اور پھر چھوڑ دیتے ہیں، چلو سلام ہو گیا۔ باقی سب لوگوں سے معمولی طرح سلام کرتے ہیں۔ قلعے والوں کی صورت کچھ ایسی ہے کہ ایک ہی نظر میں پہچان لیے جاتے ہیں۔ شہزادے ہوں یا سلاطین زادے، سب کی وضع قطع ایک سی ہے۔ وہی لمبی گردن، وہی پتلی اونچی ناک، لمبا کتابی چہرہ، بڑی بڑی لمبوتری آنکھیں، بڑا دہانہ، اونچا چَوکا، آنکھوں کے نیچے کی ابھری ہوئی ہڈیاں، گہرا سانولا رنگ، ڈاڑھی کلوں پر ہلکی، ٹھوڑی پر زیادہ۔ غرض جیسی مشابہت اِن لوگوں میں ہے، شاید ہی کسی خاندان والوں میں ہو گی۔ امیر تیمور سے لے کر اس وقت تک ان کی شکل میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔

پہلے تو قلعے بھر کا ایک ہی لباس تھا، مگر اب کچھ دو رنگی ہو گئی ہے۔ وجہ یہ ہوئی کہ جب سلیمان شکوہ کا اودھ کے دربار میں رسوخ ہوا، خاندان کے کچھ لوگ تو وہیں جا رہے اور کچھ ایسے ہیں کہ بنارس آتے جاتے رہتے ہیں۔ جو وہاں جا کر آتا ہے، لباس میں نئی تراش خراش کرتا ہے۔ اس طرح اُس کا لباس، آدھا تیتر آدھا بٹیر ہو کر، نہ لکھنؤ کا رہتا ہے نہ دہلی کا۔ اب جو لوگ یہاں بیٹھے ہیں، انہی کو دیکھ لیجیے۔ جو شاہزادے لکھنؤ جا کر آئے ہیں، ان کے سر پر لکھنؤ کی دو پلڑی ٹوپی ہے، اونچی چولی کا انگرکھا ہے۔ نیچے باریک شربتی ململ کا کرتا اور تنگ پیجامہ ہے۔ جنھوں نے قلعہ کبھی نہیں چھوڑا، ان کے جسم پر وہی پرانا لباس ہے۔ سر پر چو گوشیہ ٹوپی، جسم پر نیچی چولی کا انگرکھا، اس کے اوپر مخمل یا جامے وار کی خفتان، پاؤں میں گل بدن یا غلطے کا ایک بر کا پیجامہ۔ جو لوگ لکھنؤ ہو آئے ہیں، انھوں نے ڈاڑھی کو بھی خیر باد کہہ دیا ہے۔ چہرے کی ساخت سے تو ان کو دہلی کا شہزادہ کہہ دو تو کہہ دو، مگر لباس اور وضع قطع سے تو ٹھیٹھ لکھنؤ والے معلوم ہوتے ہیں۔

استاد ذوق سب سے مل ملا کر شامیانے کے دائیں طرف بیٹھ گئے۔ مشاعرے میں شعرا کو سلسلے سے بٹھانا بھی ایک فن ہے۔ نواب زین العابدین خاں کی تعریف کروں گا کہ جس کو جہاں چاہا، بٹھا دیا اور پھر اس طرح کہ کسی کو نہ کوئی شکوہ ہوا نہ شکایت۔ اگر کوئی ایسی جگہ بیٹھ جاتا جہاں ان کے خیال میں اس کو نہ بیٹھنا چاہیے تھا، تو بجائے اس کے کہ اس کو وہاں سے اٹھاتے، خود ایسی جگہ جا بیٹھتے جہاں اس کو بٹھانا چاہتے۔ تھوڑی دیر کے بعد کہتے: ارے بھئی! ذرا ایک بات تو سننا۔ وہ آ کر ان کے پاس بیٹھ جاتا، اس سے باتیں کرتے رہتے۔ اتنے میں کوئی ایسا شخص آ جاتا جس کو وہ خالی جگہ کے لیے موزوں سمجھتے، اس سے کہتے: تشریف رکھیے، وہ جگہ خالی ہے۔ جب وہ جگہ بھر جاتی تو کسی بہانے سے اٹھ جاتے اور اس طرح دو نشستوں کا انتظام ہو جاتا۔ شہزادوں کا سلسلے سے بٹھانا ذرا ٹیڑھی کھیر ہے، ذرا ذرا سی بات پر بگڑ کر اٹھ جاتے ہیں کہ واہ ہم اور یہاں بیٹھیں! پھر لاکھ منائیے، وہ بھلا کیا ماننے والے ہیں۔ ان جھگڑوں کو استاد ذوق خوب سمجھتے تھے، اس لیے اپنے ساتھ والوں کا انتظام انھوں نے خود کر لیا، مگر اس طرح کہ کسی کو یہ خیال بھی نہیں ہوا کہ یہ محفل کا بندوبست کر رہے ہیں۔ کسی سے کہتے: صاحبِ عالم! ادھر آئیے۔ کسی سے کسی خاص جگہ کی طرف اشارہ کرتے، کہتے: بیٹھو بھئی بیٹھو۔ غرض تھوڑی دیر میں پوری مجلس جم گئی۔ نشست کا یہ انتظام تھا کہ میرِ مشاعرہ کے دائیں جانب وہ لوگ تھے جن کا تعلق قلعے سے تھا اور بائیں طرف شہر کے دوسرے استاد اور ان کے شاگرد تھے۔

ایک چیز جو مجھے عجیب معلوم ہوئی، وہ یہ تھی کہ قلعے والے جتنے آئے تھے، سب کے ہاتھوں میں بٹیریں دبی ہوئی تھیں۔ یہ بٹیر بازی اور مرغ بازی کا مرض قلعے میں بہت ہے۔ روزانہ تیتروں، بٹیروں اور مرغوں کی پالیاں ہوتی ہیں۔ ایک شہزادے صاحب نے تو کمال کیا ہے، ایک بڑے چھکڑے پر ٹھاٹھر لگا کر چھوٹا سا گھر بنا لیا ہے اور اوپر چھت پر مٹی ڈال کر کنگنی بو دی ہے۔ ٹھاٹھر میں، خدا جھوٹ نہ بلائے، تو لاکھوں ہی پدڑیاں ہیں، جہاں چاہا، چھکڑا لے گئے اور پدڑیاں اڑا دیں۔ ایسی سدھی ہوئی ہیں کہ جھلّڑ سے ایک بھی پھٹ کر نہیں جاتی۔ انھوں نے جھنڈی ہلائی اور وہ اڑیں۔ انھوں نے آواز دی اور وہ چھت پر بیٹھ گئیں۔

استاد ذوق کو آئے ہوئے چند ہی منٹ ہوئے ہوں گے کہ مرزا فتح الملک ہوا دار میں سوار آ پہنچے۔ ان کے ساتھ نواب مرزا خاں داغؔ تھے۔ میاں داغؔ کی کوئی سولہ سترہ برس کی عمر ہو گی۔ رنگت تو بہت کالی ہے، مگر چہرے پر غضب کی نرماہٹ ہے۔ بڑی بڑی غلافی آنکھیں، سُتواں ناک، کشادہ پیشانی، سر پر سیاہ مخمل کی لیس لگی ہوئی چو گوشیہ ٹوپی۔ جسم میں ساسلیٹ کا انگرکھا، سبز گل بدن کا پیجامہ، ہاتھ میں ریشمی رومال۔ ہیں تو ابھی نو عمر، مگر شعر ایسا کہتے ہیں کہ سبحان اللہ! شہر بھر میں ان کی غزلیں گائی جاتی ہیں۔ غرض ہوا دار فرش سے ملا کر لگا دیا گیا۔ پہلے میاں داغ اترے اور اتر کر ایک طرف کھڑے ہو گئے۔ ان کے بعد مرزا فتح الملک اترے۔ ان کا نیچے قدم رکھنا تھا کہ سب سرو قد کھڑے ہو گئے۔ چار چوبدار سبز کھڑکی دار پگڑیاں باندھے، نیچی نیچی سبز بانات کی اچکنیں پہنے، سرخ شالی رو مال کمر سے لپیٹے، ہاتھوں میں گنگا جمنی عصا اور مورچھل لیے ہوئے ہوا دار کے پیچھے تھے۔ اِدھر مرزا فخرو نے فرش پر قدم رکھا، اُدھر عصا بردار تو ان کے سامنے آ گئے اور مورچھل بردار ان کے پیچھے ہولیے۔ اس سلسلے سے یہ جلوس آہستہ آہستہ شامیانے تک آیا۔ مرزا فخرو نے شامیانے کے قریب کھڑے ہو کر سب کا سلام لیا۔ پھر چاروں طرف نظر ڈال کر کہا: اجازت ہے؟ سب نے کہا: بسم اللہ، بسم اللہ! اجازت پا کر یہ شامیانے میں گئے اور سب کو سلام کر کے بیٹھ گئے۔ دوسرے سب لوگ بیٹھنے کی اجازت کے انتظار میں کھڑے تھے، ان سب کی طرف نظر ڈال کر کہا: تشریف رکھیے، تشریف رکھیے۔ سب لوگ سلام کر کے اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے۔ استاد ذوق نے داغ کو اپنے قریب ہی ایک جگہ بیٹھنے کا اشارہ کیا، وہ وہاں جا بیٹھے۔ مورچھل بردار شامیانے کے پیچھے اور عصا بردار سامنے کی صف کی پشت پر جا کھڑے ہوئے۔ جب یہ سب انتظام ہو گیا تو نواب زین العابدین خاں آگے بڑھے، شامیانے کے پاس جا کر تسلیمات بجا لائے اور دو زانو ہو کر وہیں بیٹھ گئے۔ چپکے چپکے صاحبِ عالم سے کچھ باتیں کیں اور اٹھ کر اپنی جگہ جا بیٹھے۔ ان کے اٹھ کر چلے جانے کے بعد نواب فتح الملک نے دونوں ہاتھ فاتحہ کو اٹھائے۔ ساتھ ہی اہل مجلس نے ہاتھ اٹھائے۔ فاتحۂ خیر کے بعد صاحبِ عالم نے فرمایا: اے خوش نوایانِ چمنِ دہلی! میری کیا بساط ہے جو آپ جیسے استادانِ فن کے ہوتے ہوئے میرِ مشاعرہ بننے کا خیال بھی دل میں لا سکوں، صرف حضرت پیر و مرشد کے فرمان کی تعمیل میں حاضرِ خدمت ہو گیا ہوں، ورنہ کہاں میں اور کہاں ایسے بڑے مشاعرے کی میر مجلسی۔ مُحِبّو! اس مشاعرے کی ایک خصوصیت تو آپ کو معلوم ہے کہ اس کے لیے کوئی ’’طرح‘‘ نہیں دی گئی۔ اس کی دوسری خصوصیت آپ یہ پائیں گے کہ بجائے ایک شمع کے، دو شمعیں گردش کریں گی۔ جس طرح ’’طرح‘‘ کے نکل جانے نے ایک دوسرے کے مقابلے میں فخر و مُباہات کا دروازہ بند کر دیا ہے، اُسی طرح دو شمعوں کی وجہ سے پڑھنے میں تقدیم و تاخیر سے جو خیالات طبیعتوں کو مکدر کرتے تھے، وہ بھی رفع ہو جائیں گے۔ مشاعرے کی ابتدا کرنے اور ختم کرنے کا خیال بھی اکثر دلوں میں فرق ڈالتا ہے، لیکن اس مشاعرے میں مَیں نے انتہا کو ابتدا کر دیا ہے چنانچہ حضرت ظلِ سبحانی کے کلامِ معجز نظام سے مشاعرے کی ابتدا ہو گی اور اس کے بعد ہی میں اپنی غزل عرض کر کے ابتدا اور انتہا کے فرق کو مٹا دوں گا۔ یہ کہہ کر مرزا فخرو نے ہاتھ کا اشارہ کیا۔ دو چوبدار جو سامنے کھڑے تھے، دونوں شمعیں اٹھا کر ان کے سامنے لائے۔ انھوں نے بسم اللہ کہہ کر فانوس اتارے اور شمعیں جلا کر فانوس چڑھا دیے۔ چوبداروں نے شمعوں کو لے جا کر لگنوں میں رکھ دیا اور سیدھے کھڑے ہو کر مرزا فخرو کی طرف دیکھا۔ انھوں نے گردن سے اشارہ کیا۔ اشارہ پاتے ہی چوبداروں نے بہ آوازِ بلند کہا: حضرات! مشاعرہ شروع ہوتا ہے۔

اس آواز کا سننا تھا کہ ایک سناٹا ہو گیا۔ قلعے والوں نے بٹیریں تھیلیوں میں کر، تکیوں کے پیچھے رکھ دیں۔ نوکروں نے جھٹ پٹ حقے سامنے سے ہٹا دیے اور اُن کی جگہ سب کے سامنے اگال دان، خاصدان اور بُن دھنیے کی تشتریاں رکھ، اپنی اپنی جگہ جا کھڑے ہوئے۔ اتنے میں بارگاہِ جہاں پناہی کا خواص بادشاہ سلامت کی غزل لیے ہوئے قلعے سے آیا۔ اُس کے ساتھ کئی نقیب تھے۔ وہ خود شمع کے قریب آ کر تسلیمات بجا لایا اور غزل پڑھنے کی اجازت چاہی۔

مرزا فخرو نے گردن کے اشارے سے اجازت دی، وہ وہیں بیٹھ گیا، نقیبوں نے آواز لگائی:

حاضرین! حضرت ظلِ سبحانی، صاحب قِرانِ ثانی خلّد اللہ مُلکہ و سلطن کا کلام مُعجِز نظام پڑھا جاتا ہے۔ نہایت ادب کے ساتھ گوشِ دل سے سماعت فرمائیے۔