دھوم سے سنتے ہیں اب کی سال آتی ہے بہار

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دھوم سے سنتے ہیں اب کی سال آتی ہے بہار
by مرزا محمد رفیع سودا

دھوم سے سنتے ہیں اب کی سال آتی ہے بہار
دیکھیے کیا کچھ ہمارے سر پہ لاتی ہے بہار

شاید عزم یار کی گلشن میں پہنچی ہے خبر
گل کے پیراہن میں پھولی نئیں سماتی ہے بہار

دیکھنے دے باغباں اب گلستاں اپنا مجھے
حلقۂ زنجیر میں مہماں بلاتی ہے بہار

شور یہ غنچوں کے واشد کا نہیں اے عندلیب
اب چمن میں طمطراق اپنا دکھاتی ہے بہار

کیوں پھنسا گلشن میں یوں جا کر عبث سودا تو اب
میں نہ کہتا تھا تجھے وہ دیکھ آتی ہے بہار

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse