دھوم تھی اپنی پارسائی کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دھوم تھی اپنی پارسائی کی
by الطاف حسین حالی

دھوم تھی اپنی پارسائی کی
کی بھی اور کس سے آشنائی کی

کیوں بڑھاتے ہو اختلاط بہت
ہم کو طاقت نہیں جدائی کی

منہ کہاں تک چھپاؤ گے ہم سے
تم کو عادت ہے خود نمائی کی

لاگ میں ہیں لگاؤ کی باتیں
صلح میں چھیڑ ہے لڑائی کی

ملتے غیروں سے ہو ملو لیکن
ہم سے باتیں کرو صفائی کی

دل رہا پائے بند الفت دام
تھی عبث آرزو رہائی کی

دل بھی پہلو میں ہو تو یاں کس سے
رکھئے امید دل ربائی کی

شہر و دریا سے باغ و صحرا سے
بو نہیں آتی آشنائی کی

نہ ملا کوئی غارت ایماں
رہ گئی شرم پارسائی کی

بخت ہم داستانی شیدا
تو نے آخر کو نارسائی کی

صحبت گاہ گاہی رشکی
تو نے بھی ہم سے بے وفائی کی

موت کی طرح جس سے ڈرتے تھے
ساعت آ پہنچی اس جدائی کی

زندہ پھرنے کی ہے ہوس حالیؔ
انتہا ہے یہ بے حیائی کی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.