دھوبی کا گھاٹ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دھوبی کا گھاٹ
by میراجی

جس شخص کے ملبوس کی قسمت میں لکھی ہے
کرنوں کی تمازت
رشک آتا ہے مجھ کو
اس پر

کیوں صرف اچھوتا
انجان انوکھا
اک خواب ہے خلوت
کیوں صرف تصور
بہلاتا ہے مجھ کو

کیوں صبح شب عیش کا جھونکا
بن کر
رخسار کے بے نام اذیت
سہلاتا ہے مجھ کو؟
کیوں خواب فسوں گر کی قبا چاک نہیں ہے
کیوں گیسوئے پیچیدہ و رقصاں
نمناک نہیں ہے
اشک دل خوں سے
کیوں لمس کی حسرت کے جنوں سے
ملتی نہیں مجھ کو
بے قید رہائی

ملبوس پہ کرنوں کی تمازت
ہے دام نظر کا
اور صبح شب عیش کو گیسو کا مہکتا ہوا جھونکا
مرہون سحر کا
ہوتا ہی نہیں ہے

کیوں دھوئے نہ پیراہن آلودہ کے دھبے
مخمور مسرت
کرنوں کی تمازت
بن جائے نہ کیوں رنگ شب عیش کا اک عکس مسلسل

مجبور اذیت
تو مان لے اس عکس کا منظر
دیتا ہے تجھے جام چشیدہ کی سی لذت
کیوں سوچ رہا ہے
جھوٹا ہے یہ پیالہ
کیا آج زمانے میں کہیں دیکھی ہے تو نے
دوشیزہ مسرت؟

پھیلے ہوئے ملبوس پہ کرنوں کی تمازت
ہے زیست کے گیسو کی حرارت
اس شخص کو پیراہن آلودہ کے دھونے ہی سے روزی
ملتی ہے جہاں میں
تو اس پہ نظر کر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse