دھواں کلیجے سے میرے نکلا جلا جو دل بس کہ رشک کھا کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دھواں کلیجے سے میرے نکلا جلا جو دل بس کہ رشک کھا کر
by نظیر اکبر آبادی

دھواں کلیجے سے میرے نکلا جلا جو دل بس کہ رشک کھا کر
وہ رشک یہ تھا کہ غیر سے ٹک ہنسا تھا چنچل مسی لگا کر

فقط جو چتون پہ غور کیجے تو وہ بھی وہ سحر ہے کہ جس کا
کرشمہ بندہ غلام غمزہ دغائیں نوکر فریب چاکر

خرام کی ہے وہ طرز یارو کہ جس میں نکلیں کئی ادائیں
قدم جو رکھنا تو تن کے رکھنا جو پھر اٹھانا تو ڈگمگا کر

لٹک میں بندوں کی دل جو آوے تو خیر بندے ہی اس کو لے لیں
وگرنہ آوے تو پھر نہ چھوڑے ادھر سے بالا جھمک دکھا کر

مجال کیا ہے جو دو بدو ہو نظر سے کوئی نظر لڑاوے
مگر کسی نے جو اس کو دیکھا تو سو خرابی سے چھپ چھپا کر

سنے کسی کے نہ درد دل کو وگر سنے تو جھڑک کے اس کو
یہ صاف کہہ دے تو کیا بلا ہے جو سر پھراتا ہے ناحق آ کر

نظیرؔ وہ بت ہے دشمن جاں نہ ملیو اس سے تو دیکھ ہرگز
وگر ملا تو خدا ہے حافظ بچے ہیں ہم بھی خدا خدا کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse