دھرتی ماتا
یاد ہے مجھ کو جب میں چڑھ کر
ایک پہاڑی کی چوٹی پر
شاخ پہ ایک درخت کے بیٹھا
کرتا تھا میں تیرا نظارا
کوسوں تک وہ تیرا شیوہ
دھانی ماشی کا ہی بھورا
کوسوں تک وہ تیرے میداں
ستھرے صاف چٹیلے میداں
چھٹکی چھٹکی جھاڑیاں اس پر
قدرت کی گل کاریاں اس پر
تال تلیاں دریا ریتی
باغ چمن آبادی کھیتی
ایسے تھے سب میری نظر میں
پائیں باغ ہو جیسے گھر میں
جب میں یہ سب دیکھ رہا تھا
خوش تھا دل اور یہ کہتا تھا
حد نظر کو اور بڑھاؤں
ایسی بلندی پر چڑھ جاؤں
ایسی چوٹی پر جا بیٹھوں میں
صاف جہاں سے دیکھ سکوں میں
شہر اور صوبے گاؤں اور قصبے
بکھرے بکھرے چھٹکے چھٹکے
سارا قدرت کا فرنیچر
میرے آگے آئے سمٹ کر
ساری انسانی آبادی
یعنی دنیا کی آبادی
میرے آگے کھیل رہی ہو
روتی گاتی اور ہنستی ہو
اس محویت میں جب میں تھا
مجھ کو ہوا معلوم کہ گویا
کوئی مجھ کو کھینچ رہا ہے
چونک پڑا میں کون ہے کیا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |