دھرتی ماتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دھرتی ماتا
by نادر کاکوری

یاد ہے مجھ کو جب میں چڑھ کر
ایک پہاڑی کی چوٹی پر
شاخ پہ ایک درخت کے بیٹھا
کرتا تھا میں تیرا نظارا
کوسوں تک وہ تیرا شیوہ
دھانی ماشی کا ہی بھورا
کوسوں تک وہ تیرے میداں
ستھرے صاف چٹیلے میداں
چھٹکی چھٹکی جھاڑیاں اس پر
قدرت کی گل کاریاں اس پر
تال تلیاں دریا ریتی
باغ چمن آبادی کھیتی
ایسے تھے سب میری نظر میں
پائیں باغ ہو جیسے گھر میں
جب میں یہ سب دیکھ رہا تھا
خوش تھا دل اور یہ کہتا تھا
حد نظر کو اور بڑھاؤں
ایسی بلندی پر چڑھ جاؤں
ایسی چوٹی پر جا بیٹھوں میں
صاف جہاں سے دیکھ سکوں میں
شہر اور صوبے گاؤں اور قصبے
بکھرے بکھرے چھٹکے چھٹکے
سارا قدرت کا فرنیچر
میرے آگے آئے سمٹ کر
ساری انسانی آبادی
یعنی دنیا کی آبادی
میرے آگے کھیل رہی ہو
روتی گاتی اور ہنستی ہو
اس محویت میں جب میں تھا
مجھ کو ہوا معلوم کہ گویا
کوئی مجھ کو کھینچ رہا ہے
چونک پڑا میں کون ہے کیا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse