دکھلا نہ خال ناف تو اے گل بدن مجھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دکھلا نہ خال ناف تو اے گل بدن مجھے
by محمد ابراہیم ذوق

دکھلا نہ خال ناف تو اے گل بدن مجھے
ہر لالہ یاں ہے نافۂ مشک ختن مجھے

ہمدم وبال دوش نہ کر پیرہن مجھے
کانٹا سا ہے کھٹکتا مرا تن بدن مجھے

پھرتا لیے چمن میں ہے دیوانہ پن مجھے
زنجیر پا ہے موج نسیم چمن مجھے

تسبیح دور بزم میں دیکھو امام کو
بخشی ہے حق نے زیب سر انجمن مجھے

اے میرے یاسمن ترے دندان آبدار
گلشن میں ہیں رلاتے گل یاسمن مجھے

محراب کعبہ جب سے ہے تیرا خم کماں
صید حرم سمجھتے ہیں ناوک فگن مجھے

ہے تن میں ریشہ ہائے نئے خشک استخواں
کیوں کھینچتا ہے کانٹوں میں اے ضعف تن مجھے

اے لب مسی کو پھینک کہ نیلم ہے کم بہا
یاقوت دے یا دے کوئی لعل یمن مجھے

ہوں شمع یا کہ شعلہ خبر کچھ نہیں مگر
فانوس ہو رہا ہے مرا پیرہن مجھے

اک سرزمین لالہ بہار و خزاں میں ہوں
یکساں ہے داغ تازہ و داغ کہن مجھے

خسرو سے تیشہ بولا جو چاٹوں نہ تیرا خوں
شیریں نہ ہووے خون سر کوہ کن مجھے

رخ پر تمہارے دام جو ڈالا ہے سبزے نے
آتا نظر ہے دیدۂ عنقا دہن مجھے

یہ دل وہ ہے کہ کر دے زمیں آسماں کو خاک
اک دم کو برق دے جو پنہا پیرہن مجھے

کوچے میں تیرے کون تھا لیتا بھلا خبر
شب چاندنی نے آ کے پہنایا کفن مجھے

دکھلاتا آسماں سے ہے روئے زمیں کی سیر
اے رشک ماہ تیری جبیں کا شکن مجھے

رکھتا ہے چشم لطف پہ کس کس ادا کے ساتھ
دیتا ہے جام ساقی پیماں شکن مجھے

ہے جذب دل درست تو چاہ فراق سے
کھینچے گی تیری زلف شکن در شکن مجھے

دکھلاتا اک ادا میں ہے سو سو طرح بناؤ
اس سادہ پن کے ساتھ ترا بانکپن مجھے

جیسے کنویں میں ہو کوئی تارا چمک رہا
دل سوجھتا ہے یوں تہ چاہ ذقن مجھے

آ کر اسے بھی دو کبھی آنکھیں ذرا دکھا
آنکھیں دکھا رہا ہے غرال ختن مجھے

آ اے مرے چمن کہ ہوا میں تری ہوا
صحرائے دل ہوا ہے چمن در چمن مجھے

یا رب یہ دل ہے یا کہ ہے آئینہ نظر
دکھلا رہا ہے سیر و سفر در وطن مجھے

آیا ہوں نور لے کے میں بزم سخن میں ذوقؔ
آنکھوں پہ سب بٹھائیں گے اہل سخن مجھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse