دکھلا دو نقش پائے رسول امین کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دکھلا دو نقش پائے رسول امین کو
by عبدالرحمان احسان دہلوی

دکھلا دو نقش پائے رسول امین کو
تا مشق سجدہ ہو مرے لوح جبین کو

اے آہ دل جو جاوے تو عرش برین کو
کہیو سلام عیسیٰ گردوں نشین کو

بل بے شرار اشک کی گرمی کہ اب تلک
اک آگ لگ رہی ہے مری آستین کو

تھا میں کمین بوسہ میں بولے اسی لیے
اشراف منہ لگاتے نہیں ہیں کمین کو

جب میں ہنسوں گا آپ سے رو دیجئے گا نہ
پھر تم بہت ہو چھیڑتے اس کمترین کو

کہتی ہو کیا رقیب کو بھیجوں بتا صلاح
لعنت ہی بھیجئے گا یزید لعین کو

دیکھوں ہوں گر الف کو تو اے دل ہزار بار
کرتا ہوں یاد تیرے قد دل نشین کو

آوے نظر جو لام تو آوے خیال زلف
جب سین پڑھ کے دیکھوں ہوں دنداں مسین کو

کرتا ہوں تیری الفت دنداں میں سین سین
یاں تک کہ پہنچا ہوں میں دم واپسین کو

تبدیل بحر سے وہ غزل پڑھ بآب و تاب
احساںؔ خوشی ہو جس سے دل سامعین کو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse