دکھلائے خدا اس ستم ایجاد کی صورت

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دکھلائے خدا اس ستم ایجاد کی صورت
by امانت لکھنوی

دکھلائے خدا اس ستم ایجاد کی صورت
استادہ ہیں ہم باغ میں شمشاد کی صورت

یاد آتی ہے بلبل پہ جو بیداد کی صورت
رو دیتا ہوں میں دیکھ کے صیاد کی صورت

آزاد ترے اے گل تر باغ جہاں میں
بے جاہ و حشم شاد ہیں شمشاد کی صورت

جو گیسوئے جاناں میں پھنسا پھر نہ چھٹا وہ
ہیں قید میں پھر خوب ہے میعاد کی صورت

کھینچیں گے مرے آئینہ رخسار کی تصویر
دیکھے تو کوئی مانی و بہزاد کی صورت

گالی کے سوا ہاتھ بھی چلتا ہے اب ان کا
ہر روز نئی ہوتی ہے بیداد کی صورت

کس طرح امانتؔ نہ رہوں غم سے میں دلگیر
آنکھوں میں پھرا کرتی ہے استاد کی صورت


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.