دکھا دل بھی ٹکڑے جگر ہوتے ہوتے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دکھا دل بھی ٹکڑے جگر ہوتے ہوتے
by شاد لکھنوی

دکھا دل بھی ٹکڑے جگر ہوتے ہوتے
ادھر بھی اٹھا درد ادھر ہوتے ہوتے

جوانی کا جوبن ڈھلا دن کی صورت
زوال آ گیا دوپہر ہوتے ہوتے

دل نامراد اک ہزار آرزوئیں
اسے چاہئے عمر بھر ہوتے ہوتے

نہانے میں زنجیر پا طوق گردن
بنے حلقہ حلقہ بھنور ہوتے ہوتے

وہ جا اپنے پہلو میں دے ہی یہ مشکل
جو ہوگا بھی تو دل میں گھر ہوتے ہوتے

حرم جاتے جاتے گئے میکدے میں
ادھر ہو گئے شادؔ ادھر ہوتے ہوتے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse