دکھاتے ہیں جو یہ صنم دیکھتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دکھاتے ہیں جو یہ صنم دیکھتے ہیں
by واجد علی شاہ

دکھاتے ہیں جو یہ صنم دیکھتے ہیں
خدا کی خدائی کو ہم دیکھتے ہیں

یہ حیوان ہے دست طالع پہ بھاری
نئے جانور کا قدم دیکھتے ہیں

زن و خویش و فرزند و دولت سے چھوٹے
نہ دیکھے کوئی جو کہ ہم دیکھتے ہیں

شہنشاہ ہم ہیں دلوں پر ہیں حاکم
گدا تم کو اے ذی حشم دیکھتے ہیں

فقط ہاتھ کالے نہیں بلکہ منعم
دلوں پر بھی داغ ورم دیکھتے ہیں

کہاں تک اترتی ہے سینے پہ میرے
تری تیغ ابرو کا دم دیکھتے ہیں

بھگاتی ہے مار سیہ گو کہ ہم کو
تری زلف مشکیں کا سم دیکھتے ہیں

زمیں پر بھی دیتا نہیں چین ہم کو
فلک تجھ سے جور و ستم دیکھتے ہیں

در اشک سے میرا بھرتی ہے دامن
سخی تجھ کو اے چشم نم دیکھتے ہیں

نہ رنج اور نہ شادی توسط ہے ہم کو
کہ عیش و الم بھی بہم دیکھتے ہیں

کسی ماہ نے اس کو دھوکا دیا ہے
ہم اخترؔ کو کیوں پر الم دیکھتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse