دکھاتی ہے دل پھر محبت کسی کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دکھاتی ہے دل پھر محبت کسی کی
by امداد علی بحر

دکھاتی ہے دل پھر محبت کسی کی
کہ آنکھوں میں پھرتی ہے صورت کسی کی

نہ پوچھو یہ ہیں سکۂ داغ کس کے
یہ دولت ملی ہے بدولت کسی کی

پر ارمان احباب دنیا سے اٹھے
فلک نے نکالی نہ حسرت کسی کی

یہ عالم ہے اپنا کہ کہتا ہے عالم
الٰہی نہ ہو ایسی حالت کسی کی

عجب بے مروت سے پالا پڑا ہے
کہاں تک کرے کوئی منت کسی کی

اڑا لے گئی سرو سے قمریوں کو
قیامت ہے بوٹا سی قامت کس کی

میں اس دل کا ساتھی نہیں عاشقی میں
بلا میری لے سر پر آفت کسی کی

نظر میں ہیں یاران رفتہ کے جلسے
خوش آتی نہیں مجھ کو صحبت کسی کی

وہ کیا دن تھے اے دل تجھے یاد ہے کچھ
وہ میری خوشامد وہ نخوت کسی کی

بہت بد ہے اے عشق سرکار تیرے
نہ عزت کسی کی نہ حرمت کسی کی

شکنجے میں رہتا ہے دل آدمی کا
خدا بند رکھے نہ حاجت کسی کی

کہے مجھ کو جو جس کا جی چاہے لیکن
کبھی مجھ سے ہوگی نہ غیبت کسی کی

عبث بحرؔ مرتے ہو تم ہر کسی پر
مبارک نہیں تم کو چاہت کسی کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse