دوپٹا وہ گلنار دکھلا گئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دوپٹا وہ گلنار دکھلا گئے
by امداد علی بحر

دوپٹا وہ گلنار دکھلا گئے
نئے سر سے پھر آگ بھڑکا گئے

تمہاری ضدوں سے ہم اکتا گئے
کسی روز سن لینا کچھ کھا گئے

ہماری فغاں سے نہ مانو برا
کہاں تک کریں ضبط گھبرا گئے

قفس سے چھٹے کن دنوں یا نصیب
کہ پتے بھی پھولوں کے مرجھا گئے

گئے میرے دشمن کے پھولوں میں وہ
مجھے غم کے کانٹوں میں الجھا گئے

ہمارے گل اندام کا ہے یہ رنگ
ذرا دھوپ میں نکلے سنولا گئے

یہ سر چوٹ فرقت کے صدمے رہی
بہت کاسۂ سر میں بال آ گئے

لحد میں گرے جب ہوا سر سفید
پڑی دھوپ ایسی کہ تیورا گئے

نہ پہنچی چمن تک خزاں آ گئی
دلوں کے کنول کھل کے کمھلا گئے

کسی کی وہ زلفیں جو یاد آ گئیں
مرے سینے پر سانپ لہرا گئے

فلک ابر کی طرح پھٹ جائے گا
مرے نالے جس روز ٹکرا گئے

ہر اک بات کی تہ سمجھنے لگے
بہت دور ہو ہم تمہیں پا گئے

ہوا دھوپ میں بھی نہ کم حسن یار
کنھیا بنے وہ جو سنولا گئے

نہ جوبن ابھرنے دیا ناز نے
دوپٹا جو سرکا تو شرما گئے

میاں بحرؔ کیوں چپکے چپکے ہو آج
جو میہمان آئے تھے وہ کیا گئے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.