دونوں ہی کی جانب سے ہو گر عہد وفا ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دونوں ہی کی جانب سے ہو گر عہد وفا ہو
by بیخود دہلوی

دونوں ہی کی جانب سے ہو گر عہد وفا ہو
چاہت کا مزا جب ہے کہ تم بھی مجھے چاہو

یہ ہم نہیں کہتے ہیں کہ دشمن کو نہ چاہو
اس چاہ کا انجام مگر دیکھیے کیا ہو

شمشیر سے بڑھ کر ہیں حسینوں کی ادائیں
بے موت کیا قتل ان اچھوں کا برا ہو

معشوق طرح دار ہو انداز ہو اچھا
دل آئے نہ ایسے پہ تو پھر دل کا برا ہو

پورا کوئی ہوتا نظر آتا نہیں ارماں
ان کو تو یہ ضد ہے کہ ہمارا ہی کہا ہو

تم مجھ کو پلاتے تو ہو مے سینہ پہ چڑھ کر
اس وقت اگر کوئی چلا آئے تو کیا ہو

وعدہ وہ تمہارا ہے کہ لب تک نہیں آتا
مطلب یہ ہمارا ہے کہ باتوں میں ادا ہو

خنجر کی ضرورت ہے نہ شمشیر کی حاجت
ترچھی سی نظر ہو کوئی بانکی سی ادا ہو

خالی تو نہ جائیں دم رخصت مرے نالے
فتنہ کوئی اٹھے جو قیامت نہ بپا ہو

چوری کی تو کچھ بات نہیں مجھ کو بتا دو
میرا دل بے تاب اگر تم نے لیا ہو

ان سے دم رفتار یہ کہتی ہے قیامت
فتنے سے نہ خالی کوئی نقش کف پا ہو

بد ظن ہیں وہ اس طرح کہ سرمہ اسے سمجھیں
بیمار کی آنکھوں میں اگر نیل ڈھلا ہو

خط کھول کے پڑھتے ہوئے ڈرتا ہوں کسی کا
لپٹی ہوئی خط میں نہ کہیں میری قضا ہو

مرنا ہے اسی کا جو تجھے دیکھ کے مر جائے
جینا ہے اسی کا جو محبت میں جیا ہو

ہے دل کی جگہ سینہ میں کاوش ابھی باقی
پیکاں کوئی پہلو میں مرے رہ نہ گیا ہو

مجھ کو بھی کہیں اور سے آیا ہے بلاوا
اچھا ہے چلو آج بھی وعدہ نہ وفا ہو

بیخودؔ کا فسانہ تو ہے مشہور زمانہ
یہ ذکر تو شاید کبھی تم نے بھی سنا ہو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse