دونوں گھروں کا لطف جداگانہ مل گیا
دونوں گھروں کا لطف جداگانہ مل گیا
کعبے سے ہم چلے تھے کہ بت خانہ مل گیا
ساقی سے یوں ثبوت کریمانہ مل گیا
پیمانہ میں نے مانگا تھا مے خانہ مل گیا
دل کیوں نہ ہم فروخت کریں اس یقین پر
قیمت بھی اب ملے گی جو بیعانہ مل گیا
ساقی کی چشم مست ادھر آج اٹھ گئی
ہم کو ہمارے ظرف کا پیمانہ مل گیا
کرنی پڑی نہ اور کہیں جستجو مجھے
کعبے ہی کے حدود میں بت خانہ مل گیا
محشر میں دیکھ کر انہیں یوں شاد ہو گئے
گویا ہمیں نجات کا پروانہ مل گیا
مل کر بھی جل گیا کہ بچا یہ نہ پوچھیے
اتنا ہوا کہ شمع سے پروانہ مل گیا
اب در بدر کی ٹھوکریں کھانے سے کیا غرض
مجھ کو خدائے کعبہ و بت خانہ مل گیا
اللہ رے چشم ساقی محفل کا لطف خاص
سب یوں ہی رہ گئے مجھے پیمانہ مل گیا
وہ خط میں لکھ رہے ہیں تری عافیت نہیں
مجھ کو عدم کی راہ کا پروانہ مل گیا
اے سالکان جادۂ عرفاں بڑھے چلو
بت خانہ مل گیا تو خدا خانہ مل گیا
توقیر عشق خاک اڑانے سے بڑھ گئی
یہ ہے غلط کہ خاک میں دیوانہ مل گیا
پائے عروج کیوں نہ ہماری فروتنی
پھولا پھلا وہ خاک میں جو دانہ مل گیا
جوش جنوں کے واسطے اب کچھ نہ چاہئے
ویرانے کی تلاش تھی ویرانہ مل گیا
پیمانہ و سبو کی ضرورت نہیں رہی
مجھ کو مزاج ساقئ مے خانہ مل گیا
مرقد سے کشتگان محبت نکل چکے
اب حشر تک کے واسطے کاشانہ مل گیا
معلوم ہم نے کر لئے اسرار حسن و عشق
تقدیر سے اگر کوئی دیوانہ مل گیا
رکھ لی خدائے عشق نے جوش جنوں کی شرم
گھر سے نکلتے ہی مجھے ویرانہ مل گیا
وہ کہہ گئے کہ پھر کوئی طوفان اٹھائے
اے نوحؔ مجھ کو شغل قدیمانہ مل گیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |