دونوں گھروں کا لطف جداگانہ مل گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دونوں گھروں کا لطف جداگانہ مل گیا
by نوح ناروی

دونوں گھروں کا لطف جداگانہ مل گیا
کعبے سے ہم چلے تھے کہ بت خانہ مل گیا

ساقی سے یوں ثبوت کریمانہ مل گیا
پیمانہ میں نے مانگا تھا مے خانہ مل گیا

دل کیوں نہ ہم فروخت کریں اس یقین پر
قیمت بھی اب ملے گی جو بیعانہ مل گیا

ساقی کی چشم مست ادھر آج اٹھ گئی
ہم کو ہمارے ظرف کا پیمانہ مل گیا

کرنی پڑی نہ اور کہیں جستجو مجھے
کعبے ہی کے حدود میں بت خانہ مل گیا

محشر میں دیکھ کر انہیں یوں شاد ہو گئے
گویا ہمیں نجات کا پروانہ مل گیا

مل کر بھی جل گیا کہ بچا یہ نہ پوچھیے
اتنا ہوا کہ شمع سے پروانہ مل گیا

اب در بدر کی ٹھوکریں کھانے سے کیا غرض
مجھ کو خدائے کعبہ و بت خانہ مل گیا

اللہ رے چشم ساقی محفل کا لطف خاص
سب یوں ہی رہ گئے مجھے پیمانہ مل گیا

وہ خط میں لکھ رہے ہیں تری عافیت نہیں
مجھ کو عدم کی راہ کا پروانہ مل گیا

اے سالکان جادۂ عرفاں بڑھے چلو
بت خانہ مل گیا تو خدا خانہ مل گیا

توقیر عشق خاک اڑانے سے بڑھ گئی
یہ ہے غلط کہ خاک میں دیوانہ مل گیا

پائے عروج کیوں نہ ہماری فروتنی
پھولا پھلا وہ خاک میں جو دانہ مل گیا

جوش جنوں کے واسطے اب کچھ نہ چاہئے
ویرانے کی تلاش تھی ویرانہ مل گیا

پیمانہ و سبو کی ضرورت نہیں رہی
مجھ کو مزاج ساقئ مے خانہ مل گیا

مرقد سے کشتگان محبت نکل چکے
اب حشر تک کے واسطے کاشانہ مل گیا

معلوم ہم نے کر لئے اسرار حسن و عشق
تقدیر سے اگر کوئی دیوانہ مل گیا

رکھ لی خدائے عشق نے جوش جنوں کی شرم
گھر سے نکلتے ہی مجھے ویرانہ مل گیا

وہ کہہ گئے کہ پھر کوئی طوفان اٹھائے
اے نوحؔ مجھ کو شغل قدیمانہ مل گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse