دولت حسن کی بھی ہے کیا لوٹ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دولت حسن کی بھی ہے کیا لوٹ
by حیدر علی آتش

دولت حسن کی بھی ہے کیا لوٹ
آنکھوں کو پڑ گئی ہے لوٹا لوٹ

چل رہی ہے دلا ہوائے بہار
لالہ پھولا ہے داغ سودا لوٹ

سامنے تیرے جو پڑے اے ترک
اس میں کعبہ ہو یا کلیسا لوٹ

چار دن ہے بہار اے بلبل
زر گل کا ہزار توڑا لوٹ

صف مژگاں سے کہہ رہی ہے وہ چشم
دل ملیں جتنے بے تحاشا لوٹ

صرف اللہ مال دنیا کر
مرد ہے کچھ تو بہر عقبیٰ لوٹ

صاف دل ہو تو جلوہ گر ہو یار
آئنہ ہو تو ہو تماشا لوٹ

نعمت خوان حسن جو مل جائے
یہ سمجھ لے ہے من و سلویٰ لوٹ

گوہر آبلہ ہوئے تو چلے
لیں گے دیوانو خار صحرا لوٹ

جانتے ہیں کہ فوج جنگی سے
نہیں سردار پھیر لیتا لوٹ

کام مردوں کا ہے یہ اے آتشؔ
رکھتی ہے جان کا بھی کھٹکا لوٹ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse