دوست کا خط

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دوست کا خط
by سجاد حیدر یلدرم

تو پیارے دوست کا پیارا خط ہے! تجھ میں وہ کونسی برقی شے بھری ہے جو میرے دل کو دھڑکاتی ہے! تجھے کھولتے وقت ہاتھ کیوں کانپنے لگتے ہیں؟ آخر تجھ میں اور کاغذوں سے کیا برتری ہے؟ تو بھی کاغذ کا ٹکڑا وہ بھی کاغذ کے ٹکڑے، بلکہ وہ تجھ سے زیادہ بڑے ہیں۔ ہاں باعث تفاخر و تفوق یہی ہے نا کہ دوست نے تجھے لکھا، لب پان خوردہ سے اف، لب پان خوردہ سے لفافہ بند کیا؟ بیشک، بیشک، یہ بہت بڑا تفوق ہے۔ اچھا میں تیرا امتحان لیتا ہوں، تجھے نمبر دیتا ہوں۔ سومیں دیکھوں تجھے کتنے نمبر ملتے ہیں۔

ان کے ہاتھوں سے چھوئے جانے کے۔۔۔ چالیس

اس بات کے کہ دستہ کاغذ میں سے تجھے ہی منتخب کیا۔۔۔ پچاس

ان لبوں نے لفافہ کو بند کیا۔۔۔ ستر

ہیں! تونے سو سے زیادہ نمبر پائے۔ نہیں یہ امتحان ٹھیک نہیں ہوا دوسرے طریقے سے شمار ہونا چاہیے۔

اس بات کے کہ تجھے میرے لیے منتخب کیا۔ اور کسی دوسرے کے لیے نہیں منتخب کیا۔۔۔ ساٹھ

اس بات کے کہ ان کے قلم کی تحریر تجھ پر ہے۔۔۔ چالیس

اس بات کے کہ ان کے چہرے کا عکس تجھ پر پڑا کیوں کہ وہ فرماتے ہیں کہ یہ خط رات کو لکھا ہے۔۔۔ پانچ سو

کیا؟ پھر سو سے زیادہ ہوگئے؟ یہ ٹھیک نہیں، اچھا تیسری بار پھر امتحان۔

اس بات کے کہ تو ان کے مژدہ صحت و خوشنودی مزاج کی خبرلایا۔۔۔ اسی

اس بات کے کہ تجھے چاک کردئیے جانے کا حکم ہے۔۔۔ دس ہزار

یہ کیا؟ تمبر تو سو سے پھر بڑھ گئے۔

نہیں نہیں! میں بے فائدہ کوشش نہیں کرنے کا، تو امتحان سے بالا، مواز نہ سے اعلیٰ، قید مقابلہ مقائسہ سے آزاد، پیارے دوست کا پیارا پیارا، ہائے میں کیسے ظاہر کروں کتنا پیارا خط ہے، تو سینہ سے لگایا جائے گا۔ تو نظر اغیار سے بچایا جائے گا، مگر (حاشا) تو چاک نہیں کیا جائے گا۔ تو میرے پاس محفوظ رہے گا، اور میں ہزاروں مرتبہ تجھے تنہا گوشوں میں پڑھوں گا۔

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse