دوست دشمن نے کئے قتل کے ساماں کیا کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دوست دشمن نے کئے قتل کے ساماں کیا کیا
by حیدر علی آتش

دوست دشمن نے کئے قتل کے ساماں کیا کیا
جان مشتاق کے پیدا ہوئے خواہاں کیا کیا

آفتیں ڈھاتی ہے وہ نرگس فتاں کیا کیا
داغ دیتی ہے مجھے گردش دوراں کیا کیا

پھر سکی میرے گلے پر نہ چھری ہے ظالم
ورنہ گردوں سے ہوئے کار نمایاں کیا کیا

حسن میں پہلوئے خورشید مگر دابے گا
دور کھنچتا ہے ہمارا مہ تاباں کیا کیا

روئے دلبر کی صفا سے تھا بڑا ہی دعویٰ
سامنے ہو کے ہوا آئنہ حیراں کیا کیا

آنکھیں گیسو کے تصور میں رہا کرتی ہیں بند
لطف دکھلاتا ہے یہ خواب پریشاں کیا کیا

گردش چشم دکھاتا ہے کبھی گردش جام
میری تدبیر میں پھرتا ہے یہ دوراں کیا کیا

چشم بینا بھی عطا کی دل آگہ بھی دیا
میرے اللہ نے مجھ پر کئے احساں کیا کیا

دوست نے جب نہ دم ذبح سسکتا چھوڑا
میرے دشمن ہوئے ہنس ہنس کے پشیماں کیا کیا

گردش نرگس فتاں نے تو دیوانہ کیا
دیکھو جھنکوائے کنوئیں چاہ زنخداں کیا کیا

جل گیا آگ میں آپ اپنے میں مانند چنار
پیستے رہ گئے دانت ارہ و سوہاں کیا کیا

کچھ کہے کوئی میں منہ دیکھ کے رہ جاتا ہوں
کم دماغی نے کیا ہے مجھے حیراں کیا کیا

گرم ہرگز نہ ہوا پہلوئے خالی بے یار
یاد آوے گی مجھے فصل زمستاں کیا کیا

کوئی مردود خلائق نہیں مجھ سا آتشؔ
کیا کہوں کہتے ہیں ہندو و مسلماں کیا کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse