دوست خوش ہوتے ہیں جب دوست کا غم دیکھتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دوست خوش ہوتے ہیں جب دوست کا غم دیکھتے ہیں
by صفی اورنگ آبادی

دوست خوش ہوتے ہیں جب دوست کا غم دیکھتے ہیں
کیسی دنیا ہے الٰہی جسے ہم دیکھتے ہیں

دیکھتے ہیں جسے بادیدۂ نم دیکھتے ہیں
آپ کے دیکھنے والوں کو بھی ہم دیکھتے ہیں

بے محل اب تو ستم گر کے ستم دیکھتے ہیں
کیسے کیسوں کو برے حال میں ہم دیکھتے ہیں

ہنس کے تڑپا دے مگر غصے سے صورت نہ بگاڑ
یہ بھی معلوم ہے ظالم تجھے ہم دیکھتے ہیں

لوگ کیوں کہتے ہیں تو اس کو نہ دیکھ اس کو نہ دیکھ
ہم کو اللہ دکھاتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں

باغ کی سیر نہ بازار کی تفریح رہی
ہم تو برسوں میں کسی دن پہ قدم دیکھتے ہیں

لعل ہیرے سہی تیرے لب دنداں ادھر آ
توڑ لیتے تو نہیں ہیں انہیں ہم دیکھتے ہیں

شل ہوئے دست طلب بھول گئے حرف سوال
آج ہم حوصلۂ اہل کرم دیکھتے ہیں

میں تماشا سہی لیکن یہ تماشا کیسا
مفت میں لوگ ترے ظلم و ستم دیکھتے ہیں

آپ کی کم نگہی حسن بھی ہے عیب بھی ہے
لوگ ایسا بھی سمجھتے ہیں کہ کم دیکھتے ہیں

ہم کو ٹھکراتے چلیں آپ کی محفل میں عدو
کیا انہیں کم نظر آتا ہے یا کم دیکھتے ہیں

چار لوگوں کے دکھانے کو تو اخلاق سے مل
اور کچھ بھی نہیں دنیا میں بھرم دیکھتے ہیں

میرا ہونا بھی نہ ہونے کے برابر ہے وہاں
دیکھیں جو لوگ وجود اور عدم دیکھتے ہیں

آنکھ میں شرم کا پانی مگر اتنا بھی نہ ہو
دیکھ ان کو جو تری آنکھ کو نم دیکھتے ہیں

ہو تو جائے گا ترے دیکھنے والوں میں شمار
اول اول ہی مگر اپنے کو ہم دیکھتے ہیں

راستہ چلنے کی اک چھیڑ تھی تو آقا نہ آ
ہم تو یہ قول یہ وعدہ یہ قسم دیکھتے ہیں

دیکھنا جرم ہوا ظلم ہوا قہر ہوا
یہ نہ دیکھا تجھے کس آنکھ سے ہم دیکھتے ہیں

آنکھ ان کی ہے دل ان کا ہے کلیجہ ان کا
رات دن جو مجھے بادیدۂ نم دیکھتے ہیں

اپنا رونا بھی صفیؔ راس نہ آیا ہم کو
اس کو شکوہ ہے کہ آنکھیں تری نم دیکھتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse