دوستی اس کی دشمنی ہی سہی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دوستی اس کی دشمنی ہی سہی
by قلق میرٹھی

دوستی اس کی دشمنی ہی سہی
دوست تو ہو وہ مدعی ہی سہی

مستی و بحث عذر کفارہ
توبہ سے توبہ ہم نے کی ہی سہی

ہے اگر کچھ وفا تو کیا کہنے
کچھ نہیں ہے تو دل لگی ہی سہی

جی ہے یہ بن لگے نہیں رہتا
کچھ تو ہو شغل عاشقی ہی سہی

محتسب ختم کیجئے حجت
پی ہے تو خیر ہم نے پی ہی سہی

حیف خمیاز ہائے حسرت و شوق
زندگانی کشاکشی ہی سہی

جان دے کر لیا ہے نام وفا
موت بھی ہم نے مول لی ہی سہی

ملتے ہیں مدعی سے ملنے دو
کہ مری ناخوشی خوشی ہی سہی

بوسہ دینے کی چیز ہے آخر
نہ سہی ہر گھڑی کبھی ہی سہی

قتل ہوتے ہیں قتل ہوتے ہیں
عہد دل دور نادری ہی سہی

اے قلقؔ ناصحوں سے کیا تکرار
مان اک بات مان لی ہی سہی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse