دوستو کیا کیا دوالی میں نشاط و عیش ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دوستو کیا کیا دوالی میں نشاط و عیش ہے
by نظیر اکبر آبادی

دوستو کیا کیا دوالی میں نشاط و عیش ہے
سب مہیا ہے جو اس ہنگام کے شایاں ہے شے

اس طرح ہیں کوچہ و بازار پر نقش و نگار
ہو عیاں حسن نگارستاں کی جن سے خوب رے

گرم جوشی اپنے با جام چراغاں لطف سے
کیا ہی روشن کر رہی ہے ہر طرف روغن کی مے

مائل سیر چراغاں خلق ہر جا دم بدم
حاصل نظارہ حسن شمع رو یاں پے بہ پے

عاشقاں کہتے ہیں معشوقوں سے با عجز و نیاز
ہے اگر منظور کچھ لینا تو حاضر ہیں روپے

گر مکرر عرض کرتے ہیں تو کہتے ہیں وہ شوخ
ہم سے لیتے ہو میاں تکرار حجت تا بہ کے

کہتے ہیں اہل قمار آپس میں گرم اختلاط
ہم تو ڈب میں سو روپے رکھتے ہیں تم رکھتے ہو کے

جیت کا پڑتا ہے جس کا داؤں وہ کہتا ہوں میں
سوئے دست راست ہے میرے کوئی فرخندہ پے

ہے دسہرے میں بھی یوں گر فرحت و زینت نظیرؔ
پر دوالی بھی عجب پاکیزہ تر تیوہار ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse