دوستو دل کہیں زنہار نہ آنے پائے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دوستو دل کہیں زنہار نہ آنے پائے
by امداد علی بحر

دوستو دل کہیں زنہار نہ آنے پائے
دل کے ہاتھوں کوئی آزار نہ آنے پائے

کیجیے حسن پرستی مگر اس قید کے ساتھ
پیاری صورت پہ ذرا پیار نہ آنے پائے

خانۂ یار گھر آفت کا ہے اے رہ گیرو
جسم پر سایۂ دیوار نہ آنے پائے

اے جنوں تیرا زمانے میں رہے جب تک دور
ہوش میں عاشق سرشار نہ آنے پائے

آپ پر عقدۂ نازک کمری کھل جاتا
تا کمر گیسوئے خم دار نہ آنے پائے

چشم محبوب سے نرگس کو برابر نہ کرو
پاس بیمار کے بیمار نہ آنے پائے

بحرؔ کچھ غم نہ کرو دل کے جدا ہونے کا
اب بغل میں یہ بد اطوار نہ آنے پائے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse