دور کیوں جاؤں یہیں جلوہ نما بیٹھا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دور کیوں جاؤں یہیں جلوہ نما بیٹھا ہے
by مضطر خیرآبادی

دور کیوں جاؤں یہیں جلوہ نما بیٹھا ہے
دل مرا عرش ہے اور اس پہ خدا بیٹھا ہے

بت کدہ میں ترے جلوے نے تراشے پتھر
جس نے دیکھا یہی جانا کہ خدا بیٹھا ہے

کیا ہوئے آنکھ کے پردے جو پڑے تھے اب تک
برملا حشر میں کیوں آج خدا بیٹھا ہے

نقش وحدت ہی سویدا کو کہا کرتے ہیں
دل میں اک تل ہے اور اس تل میں خدا بیٹھا ہے

میں جو کہتا ہوں کہ کعبے کو نہ برباد کرو
ہنس کے بت کہتے ہیں کیا دل میں خدا بیٹھا ہے

آسماں میں تری گردش سے نہیں ڈرتا ہوں
تجھ کو کس بات کا غم سر پہ خدا بیٹھا ہے

چشم وحدت سے جو انسان ذرا غور کرے
جس کو دیکھے یہی سمجھے کہ خدا بیٹھا ہے

اپنے مرنے کا ذرا غم نہ کرو تم مضطرؔ
یوں سمجھ لو کہ جلانے کو خدا بیٹھا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse