دور سے آئے تھے ساقی سن کے مے خانے کو ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دور سے آئے تھے ساقی سن کے مے خانے کو ہم
by نظیر اکبر آبادی

دور سے آئے تھے ساقی سن کے مے خانے کو ہم
بس ترستے ہی چلے افسوس پیمانے کو ہم

مے بھی ہے مینا بھی ہے ساغر بھی ہے ساقی نہیں
دل میں آتا ہے لگا دیں آگ مے خانے کو ہم

کیوں نہیں لیتا ہماری تو خبر اے بے خبر
کیا ترے عاشق ہوئے تھے درد و غم کھانے کو ہم

ہم کو پھنسنا تھا قفس میں کیا گلہ صیاد کا
بس ترستے ہی رہے ہیں آب اور دانے کو ہم

طاق ابرو میں صنم کے کیا خدائی رہ گئی
اب تو پوجیں گے اسی کافر کے بت خانے کو ہم

باغ میں لگتا نہیں صحرا سے گھبراتا ہے دل
اب کہاں لے جا کے بیٹھیں ایسے دیوانے کو ہم

کیا ہوئی تقصیر ہم سے تو بتا دے اے نظیرؔ
تاکہ شادی مرگ سمجھیں ایسے مر جانے کو ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse