دور ساغر کا چلے ساقی دوبارا ایک اور

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دور ساغر کا چلے ساقی دوبارا ایک اور
by آغا اکبرآبادی

دور ساغر کا چلے ساقی دوبارا ایک اور
ابر کعبہ سے اٹھا ہے مان کہنا ایک اور

جھومتا آتا ہے وہ بادل کا ٹکڑا ایک اور
ساقیا بھر کر پلا دے جام صہبا ایک اور

دن کو جو کچھ تم نے دیکھا یہ تو تھی سب دل لگی
شب کو رہ جاؤ تو دکھلائیں تماشا ایک اور

میں انہیں کہتا ہوں تم بے درد ہو نا آشنا
وہ لگاتے ہیں مجھے الزام الٹا ایک اور

دل کو نفرت ہو گئی نظروں سے آخر گر گئے
تم سے بہتر اپنی آنکھوں میں سمایا ایک اور

کیوں سسکتا چھوڑے جاتے ہو مجھے مقتل میں تم
فیصلہ کر دوں میں قرباں دے کے چرکا ایک اور

تیرے آنے میں توقف جب ہوا اے نامہ بر
خط انہیں بے چین ہو کر ہم نے لکھا ایک اور

بند محرم کے کھلے کچھ بے حجابی ہو چکی
وہ بھی اب اٹھ جائے جو باقی ہے پردا ایک اور

دوست دشمن ہو گئے یاروں نے آنکھیں پھیر لیں
رہ گیا ہے آپ کا مجھ کو بھروسا ایک اور

وصل کی شب میں کیا مرغ سحر کا بند و بست
نعرۂ اللہ اکبر کا ہے دھڑکا ایک اور

ہو چکا ذکر دہن وصف کمر لکھتے ہیں ہم
دام میں صیاد کے پھنستا ہے عنقا ایک اور

صید کی کثرت سے آغاؔ بن پڑی صیاد کی
دو نے گر پائی رہائی آ کے الجھا ایک اور

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse