دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد
by محمد علی جوہر

دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد

جینا وہ کیا کہ دل میں نہ ہو تیری آرزو
باقی ہے موت ہی دل بے مدعا کے بعد

تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے
میرا لہو بھی خوب ہے تیری حنا کے بعد

اک شہر آرزو پہ بھی ہونا پڑا خجل
ھل من مزید کہتی ہے رحمت دعا کے بعد

لذت ہنوز مائدۂ عشق میں نہیں
آتا ہے لطف جرم تمنا سزا کے بعد

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

غیروں پہ لطف ہم سے الگ حیف ہے اگر
یہ بے حجابیاں بھی ہوں عذر حیا کے بعد

ممکن ہے نالہ جبر سے رک بھی سکے اگر
ہم پر تو ہے وفا کا تقاضا جفا کے بعد

ہے کس کے بل پہ حضرت جوہرؔ یہ روکشی
ڈھونڈیں گے آپ کس کا سہارا خدا کے بعد

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse