دور تھے ہوش و حواس اپنے سے بھی بیگانہ تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دور تھے ہوش و حواس اپنے سے بھی بیگانہ تھا
by آرزو لکھنوی

دور تھے ہوش و حواس اپنے سے بھی بیگانہ تھا
ان کو بزم ناز تھی اور مجھ کو خلوت خانہ تھا

کھینچ لایا تھا یہ کس عالم سے کس عالم میں ہوش
اپنا حال اپنے لیے جیسے کوئی افسانہ تھا

چھوٹے چھوٹے دو ورق جل جل کے دفتر بن گئے
درس حسرت دے رہا تھا جو پر پروانہ تھا

جان کر وارفتہ ان کے چھیڑنے کی دیر تھی
پھر تو دل اک ہوش میں آیا ہوا دیوانہ تھا

ضوفشاں ہونے لگا جب دل میں حسن خود نما
پھر تو کعبہ آرزوؔ کعبہ نہ تھا بت خانہ تھا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse