دور تک روشنی ہے غور سے دیکھ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دور تک روشنی ہے غور سے دیکھ
by اختر انصاری اکبرآبادی

دور تک روشنی ہے غور سے دیکھ
موت بھی زندگی ہے غور سے دیکھ

ان چراغوں کے بعد اے دنیا
کس قدر تیرگی ہے غور سے دیکھ

رہنماؤں کا جذبۂ ایثار
یہ بھی اک رہزنی ہے غور سے دیکھ

دشمنی کو برا نہ کہہ اے دوست
دیکھ کیا دوستی ہے غور سے دیکھ

ترک تدبیر و جستجو کے بعد
زندگی زندگی ہے غور سے دیکھ

گر یہ شبنم کا رنگ لایا ہے
ہر طرف تازگی ہے غور سے دیکھ

ہیں تحیر میں وہ بھی اے اخترؔ
کیا تری شاعری ہے غور سے دیکھ

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse