دوری میں کیوں کہ ہو نہ تمنا حضور کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دوری میں کیوں کہ ہو نہ تمنا حضور کی
by قلق میرٹھی

دوری میں کیوں کہ ہو نہ تمنا حضور کی
منزل کو میری قرب سے نسبت ہے دور کی

فرقت نے اس کی وصل کی تشویش دور کی
تسکیں نہیں ہے یوں بھی دل ناصبور کی

موسیٰ کے سر پہ پاؤں ہے اہل نگاہ کا
اس کی گلی میں خاک اڑی کوہ طور کی

کہتا ہے انجمن کو تری خلد مدعی
اس بوالہوس کے دل میں تمنا ہے حور کی

واعظ نے میکدے کو جو دیکھا تو جل گیا
پھیلا گیا چراند شراب طہور کی

موسیٰ کو کیوں نہ موج تجلی دھکیل دے
جلوے سے اس کے گل ہوئی مشعل شعور کی

ارباب وقت جانتے ہیں روزگار نے
کی سہو سے وفا تو تلافی ضرور کی

رسوائیوں کا حوصلہ گھٹ گھٹ کے بڑھ گیا
ساماں ہے خامشی مری شور نشور کی

میل آسماں کا سوئے زمیں بے سبب نہیں
زیر قدم جگہ ہے سر پر غرور کی

اس سے نہ ملیے جس سے ملے دل تمام عمر
سوجھی ہمیں بھی ہجر میں آخر کو دور کی

پامال کر رہا ہے سیہ روزیوں کا جوش
مٹی خراب ہے مرے کلبے میں نور کی

کیا ایک قرب غیر کا صدمہ نہ پوچھیے
ہیں دل کے آس پاس بلا دور دور کی

مضموں مرے اڑائے قلقؔ سب نے اس قدر
سنتا ہوں میں ترانہ زبانی طیور کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse