دود دل سے ہے یہ تاریکی مرے غم خانہ میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دود دل سے ہے یہ تاریکی مرے غم خانہ میں
by محمد ابراہیم ذوق

دود دل سے ہے یہ تاریکی مرے غم خانہ میں
شمع ہے اک سوزن گم گشتہ اس کاشانہ میں

میں ہوں وہ خشت کہن مدت سے اس ویرانے میں
برسوں مسجد میں رہا برسوں رہا مے خانہ میں

میں وہ کیفی ہوں کہ پانی ہو تو بن جائے شراب
جوش کیفیت سے میری خاک کے پیمانہ میں

برق خرمن سوز دانائی ہے نافہمی تری
ورنہ کیا کیا لہلہاتے کھیت ہیں ہر دانہ میں

کس نزاکت سے ہے دیکھو اتحاد حسن و عشق
زلف واں شانے نے کھینچی درد ہے یاں شانہ میں

وحشت و ناآشنائی مستی و بیگانگی
یا تری آنکھوں میں دیکھی یا ترے دیوانہ میں

عشق کو نشوونما منظور ہے کب ورنہ سبز
تخم اشک شمع ہو خاکستر پروانہ میں

ہوش کا دعویٰ ہے بے ہوشوں کو زیر آسماں
خم نشیں مثل فلاطوں سب ہیں اس خم خانہ میں

پتھروں میں ٹھوکریں کھاتا ہے ناحق سیل آب
پوچھو کیا لے جائے گا آ کر مرے غم خانہ میں

ایک پتھر پوجنے کو شیخ جی کعبے گئے
ذوقؔ ہر بت قابل بوسہ ہے اس بت خانہ میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse