Jump to content

دودا پہلوان

From Wikisource
دودا پہلوان (1955)
by سعادت حسن منٹو
325054دودا پہلوان1955سعادت حسن منٹو

اسکول میں پڑھتا تھا تو شہر کا حسین ترین لڑکامتصور ہوتا تھا۔ اس پر بڑے بڑے امرد پرستوں کے درمیان بڑی خونخوار لڑائیاں ہوئیں۔ ایک دو اسی سلسلے میں مارے بھی گئے۔

وہ واقعی حسین تھا۔ بڑے مال دار گھرانے کا چشم و چراغ تھا، اس لیے اس کو کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ مگر جس میدان وہ کود پڑا تھا اس کو ایک محافظ کی ضرورت تھی جو وقت پر اس کے کام آسکے۔ شہر میں یوں تو سیکڑوں بدمعاش اور غنڈے موجود تھے جو حسین و جمیل صلاحو کے ایک اشارے پر کٹ مرنے کو تیار تھے، مگر دودے پہلوان میں ایک نرالی بات تھی۔ وہ بہت مفلس تھا، بہت بدمزاج اور اکھڑ طبیعت کا تھا، مگر اس کے باوجود اس میں ایسا بانکپن تھا کہ صلاحو نے اس کو دیکھتے ہی پسند کرلیا اور ان کی دوستی ہوگئی۔

صلاحو کو دودے پہلوان کی رفاقت سے بہت فائدے ہوئے۔ شہر کے دوسرے غنڈے جو صلاحو کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا موجب ہوسکتے تھے، دودے کی وجہ سے خاموش رہے۔ اسکول سے نکل کر صلاحو کالج میں داخل ہوا تو اس نے اور پر پرزے نکالے اور تھوڑے ہی عرصے میں اس کی سرگرمیاں نیا رخ اختیار کرگئیں۔ اس کے بعد خدا کر کرنا ایسا ہوا کہ صلاحو کا باپ مر گیا۔ اب وہ اس کی تمام جائیداد، املاک کا واحد مالک تھا۔ پہلے تو اس نے نقدی پر ہاتھ صاف کیا، پھر مکان گروی رکھنے شروع کیے، جب دو مکان بک گئے تو ہیرا منڈی کی تمام طوائفیں صلاحو کے نام سے واقف تھیں۔ معلوم نہیں اس میں کہاں تک صداقت ہے ،لیکن لوگ کہتے ہیں کہ ہیرا منڈی میں بوڑھی نائکائیں اپنی جوان بیٹیوں کو صلاحو کی نظروں سے چھپا چھپا کر رکھتی تھیں۔ مبادا وہ اس کے حسن کے چکر میں پھنس جائیں۔ لیکن ان احتیاطی تدابیر کے باوجود جیساکہ سننے میں آیا ہے، کئی کنواری طوائف زادیاں اس کے عشق میں گرفتار ہوئیں اور الٹے رستے پر چل کر اپنی زندگی کے سنہرے ایام اس کے تلون کی نذر کر بیٹھیں۔

صلاحو کھل کھیل رہا تھا۔ دودے کو معلوم تھا کہ یہ کھیل دیر تک جاری نہیں رہے گا۔ وہ عمر میں صلاحو سے دگنا بڑا تھا۔ اس نے ہیرا منڈی میں بڑے بڑے سیٹھوں کی خاک اڑتے دیکھی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ ہیرا منڈی ایک ایسا اندھا کنواں ہے جس کو دنیا بھر کے سیٹھ مل کر بھی اپنی دولت سے نہیں بھر سکتے۔مگر وہ اس کو کوئی نصیحت نہیں دیتا تھا۔ شاید اس لیے کہ وہ جہاں دیدہ ہونے کے باعث اچھی طرح سمجھتا تھا کہ جو بھوت اس کے حسین و جمیل بابو کے سر پر سوار ہے، اسے کوئی ٹونا ٹوٹکا اتار نہیں سکتا۔

دودا پہلوان ہر وقت صلاحو کے ساتھ ہوتا تھا۔ شروع شروع میں جب صلاحو نے ہیرا منڈی کا رخ کیا تو اس کا خیال تھا کہ دودا بھی اس کے عیش میں شریک ہوگا، مگر آہستہ آہستہ اسے معلوم ہوا کہ اس کو اس قسم کے عیش سے کوئی دلچسپی نہیں تھی جس میں وہ دن رات غرق رہتا تھا۔ وہ گانا سنتا تھا، شراب پیتا تھا، طوائفوں سے فحش مذاق بھی کرتا تھا، مگر اس سے آگے کبھی نہیں گیا تھا۔ اس کا بابو رات رات بھر اندر کسی معشوق کو بغل میں دبائے پڑا رہتا اور وہ باہر کسی پہرے دار کی طرح جاگتا رہتا۔

لوگ سمجھتے تھے کہ دودے نے اپنا گھر بھر لیا ہے، دولت کی لوٹ مچی ہے،اس میں اس نے یقیناً اپنے ہاتھ رنگے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب صلاحو داد عیش دینے کو نکلتا تھا ہزاروں نوٹ دودے ہی کی تحویل میں ہوتے تھے۔ مگر یہ صرف اسی کو معلوم تھا کہ پہلوان نے ان میں سے ایک پائی بھی کبھی ادھر ادھر نہیں کی۔ اس کو صرف صلاحو سے دلچسپی تھی، جس کو اپنا آقا سمجھتا تھا اور یہ لوگ بھی جانتے تھے کہ دودا کس حد تک اس کا غلام ہے۔ صلاحو اس کو ڈانٹ ڈپٹ لیتا تھا۔ بعض اوقات شراب کے نشے میں اسے مار پیٹ بھی لیتا تھا مگر وہ خاموش رہتا۔ حسین و جمیل صلاحو اس کا معبود تھا۔ وہ اس کے حضور کوئی گستاخی نہیں کرسکتا تھا۔

ایک دن اتفاق سے دودا بیمار تھا۔ صلاحو رات کو حسب معمول عیش کرنے کے لیے ہیرا منڈی پہنچا۔ وہاں کسی طوائف کے کوٹھے پر گانا سننے کے دوران میں اس کی جھڑپ ایک تماش بین سے ہوگئی اور ہاتھا پائی میں اس کے ماتھے پر ہلکی سی خراش آگئی۔ دودے کو جب اس کا علم ہوا تو اس نے دیوار کے ساتھ ٹکر مار مار کر اپنا سارا سر زخمی کرلیا، خود کو بے شمار گالیاں دیں، بہت برا بھلا کہا۔ اس کو اتنا افسوس ہوا کہ دس پندرہ دن تک صلاحو کے سامنے اس کا سرجھکا رہا۔ ایک لفظ بھی اس کے منہ سے نہ نکلا۔ اس کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ اس سے کوئی بہت بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہے۔ چنانچہ لوگوں کا بیان ہے کہ وہ بہت دیر تک نمازیں پڑھ پڑھ کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتا رہا۔

صلاحو کی وہ اس طرح خدمت کرتا تھا جس طرح پرانے قصے کہانیوں کے وفادار نوکر کرتے ہیں۔ وہ اس کے جوتے پالش کرتا تھا۔ اس کے پاؤں دابتا تھا۔ اس کے چمکیلے بدن پر مالش کرتا تھا۔ اس کے ہر آرام اور آسائش کا خیال رکھتا تھا جیسے اس کے بطن سے پیدا ہوا ہے۔

کبھی کبھی صلاحو ناراض ہو جاتا۔ یہ وقت دودے پہلوان کے لیے بڑی آزمائش کا وقت ہوتا تھا۔ دنیا سے بیزار ہو جاتا۔ فقیروں کے پاس جا کر تعویذ گنڈے لے لیتا۔ خود کو طرح طرح کی جسمانی تکلیف پہنچاتا۔ آخر جب صلاحو موج میں آکر اسے بلاتا تو اسے ایسا محسوس ہوتا کہ دونوں جہان مل گئے ہیں۔ دودے کو اپنی طاقت پر ناز نہیں تھا، اسے یہ بھی گھمنڈ نہیں تھا کہ وہ چھری مارنے کے فن میں یکتا ہے۔ اس کو اپنی ایمان داری اور اپنے خلوص پر بھی کوئی فخر نہیں تھا۔ لیکن وہ اپنی اس بات پر بہت نازاں تھا کہ لنگوٹ کا پکا ہے۔ وہ اپنے دوستوں، یاروں کو بڑے فخر و امتیاز سے بتایا کرتا تھا کہ اس کی جوانی میں سیکڑوں مردمار عورتیں آئیں، چلتروں کے بڑے بڑے منتر اس پر پھونکے مگر وہ۔۔۔ شاباش ہے اس کے استاد کو، لنگوٹ کا پکا رہا۔ یہ بڑ نہیں تھی۔ ان لوگوں کو جو دودے پہلوان کے لنگوٹیے تھے، اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کا دامن عورت کی تمام آلائشوں سے پاک ہے۔ متعدد بار کوشش کی گئی کہ وہ گمراہ ہو جائے مگر ناکامی ہوئی۔ وہ ثابت قدم رہا۔خود صلاحو نے کئی بار اس کا امتحان لیا۔ اجمیر کے عرس پر اس نے میرٹھ کی ایک کافر ادا طوائف انوری کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ دودے پہلوان پر ڈورے ڈالے۔ اس نے اپنے تمام گر استعمال کرڈالے مگر دودے پر کوئی اثر نہ ہوا۔ عرس ختم ہونے پر جب وہ لاہور روانہ ہوئی تو گاڑی میں اس نے صلاحو سے کہا، ’’باؤ! بس اب میرا کوئی امتحان نہ لینا۔ یہ سالی انوری بہت آگے بڑھ گئی تھی۔ تمہارا خیال تھا، ورنہ گلا گھونٹ دیتا حرام زادی کا۔‘‘

اس کے بعد صلاحو نے اس کا اور کوئی امتحان نہ لیا۔ دودے کے یہ تنبیہی الفاظ کافی تھے جو اس نے بڑے سنگین لہجے میں ادا کیے تھے۔صلاحو عیش و عشرت میں بدستور غرق تھا،اس لیے کہ ابھی تین چار مکان باقی تھے۔ ہیرا منڈی کی تمام قابل ذکر طوائفیں ایک ایک کرکے اس کے پہلو میں آچکی تھیں۔ اب اس نے چھوٹے جاموں کا دور شروع کردیا تھا۔ اسی دوران میں ایک دم کہیں سے ایک طوائف الماس پیدا ہوگئی جو ایک دم ساری ہیرا منڈی پر چھا گئی۔دیکھا کسی نے بھی نہیں تھا لیکن اس کے باوجوداس کے حسن کے چرچے عام تھے۔ ہاتھ لگائے میلی ہوتی ہے۔ پانی پیتی ہے تو اس کے شفاف حلق میں سے نظر آتا ہے۔ ہرنی کی سی آنکھیں ہیں جن میں خدا نے اپنے ہاتھ سے سرمہ لگایا ہے۔ بدن ایسا ملائم ہے کہ نگاہیں پھسل پھسل جاتی ہیں۔ صلاحو جہاں بھی جاتا تھا، اس پری چہرہ اور حور شمائل معشوقہ کے حسن و جمال کی باتیں سنتا تھا۔

دودے پہلوان نے فوراً پتہ لگایا اور اپنے بابو کو بتایا کہ یہ الماس کشمیر سے آئی ہے۔ واقعی خوب صورت ہے، ادھیڑ عمر کی ماں اس کے ساتھ ہے جو اس پر بہت کڑی نگرانی رکھتی ہے۔ اس لیے کہ وہ لاکھوں کے خواب دیکھ رہی ہے۔ جب الماس کا مجرا شروع ہوا تو اس کے کوٹھے پر صرف وہی صاحب ثروت جاتے تھے جن کا لاکھوں کا کاروبار تھا۔ صلاحو کے پاس اب اتنی دولت نہیں تھی کہ وہ ان تگڑے دولت مند عیاشوں کا مقابلہ خم ٹھونک کے کرسکے۔ آٹھ دس مجروں ہی میں اس کی حجامت ہوجاتی۔ چنانچہ وہ اسی خیال کے تحت خاموش رہا اور پیچ و تاب کھاتا رہا۔ دودا پہلوان اپنے بابو کی یہ بے چارگی دیکھتا تو اسے بہت دکھ ہوتا۔ مگر وہ کیا کرسکتا تھا۔ اس کے پاس تھا ہی کیا۔ ایک صرف اس کی جان تھی مگر وہ اس معاملے میں کیا کام دے سکتی تھی۔ بہت سوچ بچار کے بعد آخر دودے نے ایک ترکیب سوچی، جو یہ تھی کہ صلاحو، الماس کی ماں اقبال سے رابطہ پیدا کرے۔ اس پر یہ ظاہر ہے کہ وہ اس کے عشق میں گرفتار ہوگیا ہے۔ اس طرح جب موقع ملے تو الماس کو اپنے قبضے میں کرلے۔

صلاحو کو یہ ترکیب پسند آئی۔ چنانچہ فوراً اس پر عمل درآمد شروع ہوگیا۔ اقبال بہت خوش ہوئی کہ اس ڈھلتی عمر میں اسے صلاحو جیسا خوبرو چاہنے والا مل گیا۔ یہ سلسلہ دیر تک جاری رہا۔ اس دوران سیکڑوں مرتبہ الماس صلاحو کے سامنے آئی۔ بعض اوقات اس کے پاس بیٹھ کر باتیں بھی کرتی رہی اور اس کے حسن سے کافی متاثر ہوئی۔ اس کو حیرت تھی کہ وہ اس کی ماں سے کیوں دلچسپی لے رہا ہے جب کہ وہ اس کی آنکھوں کے سامنے موجود ہے۔ لیکن اس کی یہ حیرت بہت دیر تک قائم نہ رہی۔ جب اس کو صلاحو کی حرکات و سکنات سے معلوم ہوگیا ہے کہ وہ چال چل رہا ہے، اس انکشاف سے اسے خوشی ہوئی۔ اندرونی طور پر اس کے احساس جوانی کو بڑی ٹھیس پہنچ رہی تھی۔

باتوں باتوں میں ایک دن صلاحو کا ذکر آیا تو الماس نے اس کی خوبصورتی کی تعریف ذرا چٹخارے کے ساتھ بیان کی جو اس کی ماں اقبال کو بہت ناگوار معلوم ہوئی۔ چنانچہ ان دونوں میں خوب چخ چخ ہوئی۔ الماس نے اپنی ماں سے صاف صاف کہہ دیا کہ صلاحو اسے بیوقوف بنا رہا ہے۔ اقبال کو بہت دکھ ہوا۔ یہاں اب بیٹی کا سوال نہیں تھا بلکہ رقیب کا یا موت کا۔ چنانچہ دوسرے روز جب صلاحو آیا تو اس نے سب سے پہلے اس سے پوچھا، ’’آپ کسے پسند کرتے ہیں، مجھے یا میری بیٹی الماس کو؟‘‘

صلاحو عجب مخمصے میں گرفتار ہوگیا۔ سوال بڑا ٹیڑھا تھا۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد اس کو بآلاخر یہی کہنا پڑا، ’’تمہیں، میں تو صرف تمہیں پسند کرتا ہوں۔‘‘ اور پھر اسے اقبال کو مزید یقین دلانے کے لیے اور بہت سی باتیں گھڑنا پڑیں۔ اقبال یوں تو بہت چالاک تھی مگر اس کو کسی حد تک یقین آہی گیا۔ شاید اس لیے کہ وہ اپنی عمر کے ایسے موڑ پر پہنچ چکی تھی جہاں اسے چند جھوٹی باتوں کو بھی سچا سمجھنا ہی پڑتا تھا۔

جب یہ بات الماس تک پہنچی تو وہ بہت جزبز ہوئی۔ جونہی اسے موقع ملا، اس نے صلاحو کو پکڑ لیا اور اس سے سچ اگلوانے کی کوشش کی۔ صلاحو زیادہ دیر تک اس کی جرح برداشت نہ کرسکا۔ آخر اسے ماننا ہی پڑا کہ اسے اقبال سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اصل میں تو الماس کا حصول ہی اس کے پیش نظر ہے۔یہ قبولوانے پر الماس کی تسلی ہوئی، مگر وہ لگاؤ جو اس کے دل و دماغ میں صلاحو کے متعلق پیدا ہوا تھا، غائب ہوگیا اور اس نے ٹھیٹ طوائف بن کر اپنی ماں کو سمجھایا کہ بچپنا چھوڑ دو اوراس سے میرے دام وصول کرو، تمہیں وہ کیا دے گا۔ اپنی لڑکی کی یہ عقل والی بات اقبال کی سمجھ میں آگئی اور وہ صلاحو کو دوسری نظر سے دیکھنے لگی۔

صلاحو بھی سمجھ گیا کہ اس کا وار خالی گیا ہے۔ اب اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ نیلام میں الماس کی سب سے بڑھ کر بولی دے۔ دودے پہلوان نے ادھر ادھر سے کرید کر معلوم کیا کہ الماس کی نتھنی اتر سکتی ہے اگر صلاحو پچیس ہزار روپے اس کی ماں کے قدموں میں ڈھیر کردے۔

صلاحو اب پوری طرح جکڑا جا چکا تھا۔ جائے رفتن نہ پائے ماندن والا معاملہ تھا۔ اس نے دو مکان بیچے اور پچیس ہزار روپے حاصل کرکے اقبال کے پاس پہنچا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اتنی رقم پیدا نہیں کرسکے گا۔ جب وہ لے آیا، تو وہ بوکھلا سی گئی۔ الماس سے مشورہ کیا تو اس نے کہا اتنی جلدی کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ پہلے اس سے کہو کہ ہمارے ساتھ کلیر شریف کے عرس پر چلے۔ صلاحو کو جانا پڑا اور نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ پورے پندرہ ہزار روپے مجروں میں اڑ گئے۔ اس کی ان تماش بینوں پر جو عرس میں شریک ہوئے تھے، دھاک تو بیٹھ گئی مگر اس کے پچیس ہزار روپوں کو دیمک لگ گئی۔ واپس آئے تو باقی کا روپیہ آہستہ آہستہ الماس کی فرمائشوں کی نذر ہوگیا۔

دودا اندر ہی اندر غصے سے کھول رہا تھا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ اقبال اور الماس، دونوں کا سر اڑا دے۔ مگر اسے اپنے بابو کا خیال تھا۔ اس کے دل میں بہت سی باتیں تھیں جو وہ صلاحو کو بتانا چاہتا تھا، مگر بتا نہیں سکتا تھا۔ اس سے اسے اور بھی جھنجھلاہٹ ہوتی۔ صلاحو بہت بری طرح الماس پر لٹو تھا۔ پچیس ہزار روپے ٹھکانے لگ چکے تھے۔ اب وہ دس ہزار روپے اس مکان کو گروی رکھ کر اجاڑ رہا تھا جس میں اس کی نیک سیرت ماں رہتی تھی۔ یہ روپیہ کب تک اس کا ساتھ دیتا۔ اقبال اور الماس دونوں جونک کی طرح چمٹی ہوئی تھیں۔ آخر وہ دن بھی آگیا جب اس پر نالش ہوئی اور عدالت نے اسے قرقی کا حکم دے دیا۔

صلاحو بہت پریشان ہوا، اسے کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ کوئی ایسا آدمی نہیں تھا، جو اسے قرض دیتا۔ لے دے کر ایک مکان تھا، سو وہ بھی گروی تھا اور قرقی آئی ہوئی تھی، اور بیلف صرف دودے پہلوان کی وجہ سے رکے ہوئے تھے، جس نے ان کو یقین دلایا تھا کہ وہ بہت جلد روپے کا بندوبست کردے گا۔

صلاحو بہت ہنسا تھا کہ دودا کہاں سے روپے کا بندوبست کرے گا۔ سو دو سو روپے کی بات ہوتی تو اسے یقین آجاتا۔ مگر سوال پورے دس ہزار روپے کا تھا۔ چنانچہ اس نے پہلوان کا بڑی بے دردی سے مذاق اڑایا تھا کہ وہ اس کو طفل تسلیاں دے رہا ہے۔ پہلوان نے یہ لعن طعن خاموشی سے برداشت کی اور چلا گیا۔ دوسرے روز آیا تو اس کا شنگرف ایسا چہرہ زرد تھا۔ ایسا معلوم تھا کہ وہ بستر علالت پر سے اٹھ کر آیا ہے۔ سرنیوڑھا کر اس نے اپنے ڈب میں سے رومال نکالا جس میں سوسو کے کئی نوٹ تھے اور صلاحو سے کہا،’’لے باؤ۔۔۔ لے آیا ہوں۔‘‘

صلاحو نے نوٹ گنے۔ پورے دس ہزار تھے۔ ٹکر ٹکر پہلوان کا منہ دیکھنے لگا۔

’’یہ روپیہ کہاں سے پیدا کیا تم نے؟‘‘ دودے نے افسردہ لہجے میں جواب دیا، ’’ہو گیا پیدا کہیں سے۔‘‘ صلاحو قرقی کو بھول گیا۔ اتنے سارے نوٹ دیکھے تو اس کے قدم پھر الماس کے کوٹھے کی طرف اٹھنے لگا۔ مگر پہلوان نے اسے روکا۔ ’’نہیں باؤ۔۔۔ الماس کے پاس نہ جاؤ۔ یہ روپیہ قرقی والوں کو دو۔‘‘ صلاحو نے بگڑے ہوئے بچے کی مانند کہا، ’’کیوں۔۔۔؟ میں جاؤں گا الماس کے پاس۔‘‘ دودے نے کڑے لہجے میں کہا، ’’تو نہیں جائے گا؟‘‘ صلاحو طیش میں آگیا، ’’تو کون ہوتا ہے مجھے روکنے والا۔‘‘ دودے کی آواز نرم ہوگئی، ’’میں تیرا غلام ہوں باؤ۔۔۔ پر اب الماس کے پاس جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘ دودے کی آواز میں لرزش پیدا ہوگئی، ’’نہ پوچھ باؤ۔۔۔ یہ روپیہ مجھے اسی نے دیا ہے۔‘‘ صلاحو قریب قریب چیخ اٹھا، ’’یہ روپیہ الماس نے دیا ہے۔۔۔ تمہیں دیا ہے؟‘‘

’’ہاں باؤ۔ اسی نے دیا ہے۔ مجھ پر بہت دیر سے مرتی تھی سالی، پر میں اس کے ہاتھ نہیں آتا تھا۔ تجھ پر تکلیف کا وقت آیا تو میرے دل نے کہا دودے چھوڑ اپنی قسم کو۔ تیرا باؤ تجھ سے قربانی مانگتا ہے۔ سو میں کل رات اس کے پاس گیا اور۔۔۔ اور۔۔۔ اور اس سے یہ سودا کرلیا۔‘‘

دودے کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.