دوبارہ دل میں کوئی انقلاب ہو نہ سکا
Appearance
دوبارہ دل میں کوئی انقلاب ہو نہ سکا
تمہاری پہلی نظر کا جواب ہو نہ سکا
کمال نور زوال حجاب ہو نہ سکا
وہ بے نقاب کبھی بے نقاب ہو نہ سکا
دل تپیدہ ہوا بزم حسن سے واپس
نظر ٹھہر نہ سکی انتخاب ہو نہ سکا
روش بدل گئی تیور ترے نہیں بدلے
قیامت آئی مگر انقلاب ہو نہ سکا
کہاں دل اور کہاں دل کے آئینے کی ادا
غرض سوال سے بہتر جواب ہو نہ سکا
مرے سوال پہ اس نے نظر جو کی نیچی
پھر اس کا مجھ سے جواب الجواب ہو نہ سکا
جلال رعب ہے ناطقؔ جمال پر اس کے
وہ بے نقاب کبھی بے نقاب ہو نہ سکا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |