دن ہی ملئے گا یا شب آئیے گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دن ہی ملئے گا یا شب آئیے گا
by قائم چاندپوری

دن ہی ملئے گا یا شب آئیے گا
بندہ خانہ میں پھر کب آئیے گا

لگ چلی ہی سی ہے ابھی تو خیال
ڈھب چڑھے گا تو کچھ ڈھبائیے گا

ایک بوسہ پہ دین و دل تو لیا
اور کتنا مجھے دبائیے گا

جا چکے ہم جب آپ سے پیارے
کیوں نہ اس راہ سے اب آئیے گا

ہم بھی ملا سے کچھ کریں گے شروع
آپ کس وقت مکتب آئیے گا

کر لے کرنی جو ہے خرید و فروخت
پھیر اس پینٹھ میں کب آئیے گا

اب تو قائمؔ ہے کوچ ہی کی صلاح
یوں گھر اپنا ہے پھر جب آئیے گا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse