Jump to content

دن کے روپ میں رات کہانی

From Wikisource
دن کے روپ میں رات کہانی
by میراجی
331415دن کے روپ میں رات کہانیمیراجی

رات کے پھیلے اندھیرے میں کوئی سایہ نہیں
جھلملاتے ہوئے کمزور ستارے یہ کہے جاتے ہیں
چاند آئے گا تو سائے بھی چلے آئیں گے
رات کے پھیلے اندھیرے میں کوئی سایہ نہیں ہوتا ہے

رات اک بات ہے صدیوں کی کئی صدیوں کی
یا کسی پچھلے جنم کی ہوگی
رات کے پھیلے اندھیرے ہیں کوئی سایہ نہ تھا
رات کا پھیلا اندھیرا محتاج
اک بھکاری تھا اسی پہلی کرن کا جو لرزتے ہوئے آتی ہے جگا دیتی ہے
سوئے سایوں کو اٹھا دیتی ہے بیداری میں
زیست کے ہلتے ہوئے جھومتے آثار نظر آتے ہیں
زیست سے پہلے مگر بات کوئی اور ہی تھی
رات کے پھیلے اندھیرے میں کوئی سایہ نہ تھا
چاند کے آنے پہ سائے آئے

اس کے بکھرے ہوئے گیسو سائے
لاج کی میٹھی جھجک بھی سایہ
اور بھی سائے تھے ہلکے گہرے
کالی آنکھوں کی گھنیری پلکیں
اپنے آغوش میں سایوں کو لئے بیٹھی تھیں
اور ان سایوں میں محسوس ہوا کرتا تھا
دل کا غم دل کی خلش دل کی تمنا ہر شے
ایک سایہ ہے لرزتا سایہ
اور مجھے دیکھنے پر اس کی گھنیری چپ چاپ
ایک سایہ ہی نظر آتی تھی
ایسا اک سایہ جو خاموش رہا کرتا ہو
اور اسے دیکھتے ہی میں بھی تو اک سایہ ہی بن جاتا تھا
سایہ خاموش رہا کرتا ہے
اور اک لرزش بیتاب کے ہونے پہ بھی خاموشی ہی
راہ میں میری عناں گیر ہوا کرتی تھی

اس کے بکھرے ہوئے گیسو سائے
لاج کی میٹھی جھجک بھی سایہ
اور بھی سائے تھے ہلکے گہرے
کالی آنکھوں کی گھنیری پلکیں
اپنے آغوش میں سایوں کو لئے بیٹھی تھیں
اور ان سایوں میں محسوس ہوا کرتا تھا
دل کا غم دل کی خلش دل کی تمنا ہر شے
ایک سایہ ہے لرزتا سایہ
اور مجھے دیکھنے پر اس کی گھنیری چپ چاپ
ایک سایہ ہی نظر آتی تھی
ایسا اک سایہ جو خاموش رہا کرتا ہو
اور اسے دیکھتے ہی میں بھی تو اک سایہ ہی بن جاتا تھا
سایہ خاموش رہا کرتا ہے
اور اک لرزش بیتاب کے ہونے پر بھی خاموشی ہی
راہ میں میری عناں گیر ہوا کرتی تھی
سیدھا جاتا ہوا رستہ بھی تو اک سایہ تھا
اس پہ آتے ہوئے جاتے ہوئے انسان تمام
دھندلے سائے تھے مگر سائے تھے
میں بھی جاتا ہوا آتا ہوا اک سایہ تھا
میں بھی اک سایہ تھا کس کا سایہ
کس کے قدموں سے لپٹتے ہوئے چپ چاپ چلا جاتا تھا
کہہ تو دوں دل میں یہ غم ناک خیال آتا ہے
سایہ خاموش رہا کرتا ہے

رات کے سائے ہی خاموش رہا کرتے ہیں
دن کے سائے تو کہا کرتے ہیں
بیتی لذت کی کہانی سے
اور مری مستی بھی اب دن کا ہی اک سایہ ہے
جس کے ایک کنارے کو شعاع سوزاں
اپنی شدت سے جلانے پہ مٹانے پہ تلی بیٹھی ہے
کاش آ جائے گھٹا چھائے گھٹا اور بن جائے
چڑھتے سورج کا زوال

چڑھتا سورج یہ بتا دیتا ہے
بڑھتے سائے ہیں کسی کے غماز
بہتے بہتے یہ کہے جاتے ہیں
رات کے جاگے ہوئے سوئے ہوئے اٹھے ہیں
دھوپ کھاتے ہوئے لٹکے لٹکے
جب کوئی پیرہن آویزاں
ایک جھونکے سے لرز اٹھتا ہے
ہم نوائی کو لرزتا ہوا سایہ بھی کہے جاتا ہے
بیتی لذت کی کہانی سب سے

بیتی لذت بھی مرے واسطے اک سایہ ہے
کسی سورج کے تلے آتے ہوئے بادل کا
سرسراتے ہوئے جھونکے کی طرح آتا ہوا جاتا ہوا
باتیں کرنے کو وہ اک پل بھی نہیں رکتا تھا
دن کا سایہ تھا اسے رات کی اک بات بھی معلوم نہ تھی
رات اک بات ہے صدیوں کی کئی صدیوں کی
اور اب دن ہے مجھے سائے نظر آتے ہیں
بولتے سائے نظر آتے ہیں
جانے پہچانے ہیں پھر بھی نئے مفہوم سمجھاتے ہیں سمجھاتے ہی چلے جاتے ہیں
پھر پلٹ آتے ہیں
جیسے میں جاتا تھا اور جا کے پلٹ آتا تھا
اسی رستے پہ جو اک سایہ تھا

راستہ آج بھی سایہ ہے مگر اک نیا سایہ ہے
راہ میں ایک مکان
وہ بھی سایہ ہے اداسی کا گھنیرا سنسان
راہ میں آتی ہوئی ہر مورت
ایک سایہ ہے چڑیل
حور کا اس میں کوئی عکس نظر آتا نہیں
دیکھتے ہی جسے میں کانپ اٹھا کرتا ہوں
آنکھوں میں خون اتر آتا ہے
سامنے دھند سی چھا جاتی ہے
دل دھڑکتا ہی چلا جاتا ہے
اور میں دیکھتا ہوں
سائے ملتے ہوئے گھلتے ہوئے کچھ بھوت سے بن جاتے ہیں
ہنہناتے ہوئے ہنستے ہیں پکار اٹھتے ہیں
دل میں کیا دھیان یہی ہے اب بھی
دل میں کیا دھیان یہی ہے اب بھی
سایہ خاموش رہا کرتا ہے
دیکھ ہم بولتے ہیں بولتے سائے ہیں تمام
ہم سے بچ تو کہاں جائے گا
اور میں کانپ اٹھا کرتا ہوں
اور وہ بولتے ہیں
کانپ اٹھا ہے لرزتا ہے یہ بزدل ناکام
بات کرتا ہی نہیں ہے کوئی
اب بھی شاید یہ سمجھتا ہے لرزتے دل میں
سایہ خاموش رہا کرتا ہے


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.