دن کی آہیں نہ گئیں رات کے نالے نہ گئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دن کی آہیں نہ گئیں رات کے نالے نہ گئے
by جلیل مانکپوری

دن کی آہیں نہ گئیں رات کے نالے نہ گئے
میرے دل سوز مرے چاہنے والے نہ گئے

اپنے ماتھے کی شکن تم سے مٹائی نہ گئی
اپنی تقدیر کے بل ہم سے نکالے نہ گئے

تذکرہ سوز محبت کا کیا تھا اک بار
تا دم مرگ زباں سے مری چھالے نہ گئے

شمع رو ہو کے فقط تم نے جلانا سیکھا
میرے غم میں کبھی دو اشک نکالے نہ گئے

آج تک ساتھ ہیں سرکار جنوں کے تحفے
سر کا چکر نہ گیا پاؤں کے چھالے نہ گئے

وہ بھلا پیچ نکالیں گے مری قسمت کے
اپنے بالوں کے تو بل ان سے نکالے نہ گئے

کوئی شب ایسی نہ گزری کہ بنا کر گیسو
سیکڑوں بل مری تقدیر میں ڈالے نہ گئے

ہم سفر ایسے وفادار کہاں ملتے ہیں
تیرے وحشی کے قدم چھوڑ کے چھالے نہ گئے

اپنا دیوان مرقع ہے حسینوں کا جلیلؔ
نکتہ چیں تھک گئے کچھ عیب نکالے نہ گئے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse