دن ڈھلا شام ہوئی پھول کہیں لہرائے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دن ڈھلا شام ہوئی پھول کہیں لہرائے
by عابد علی عابد

دن ڈھلا شام ہوئی پھول کہیں لہرائے
سانپ یادوں کے مہکتے ہوئے ڈسنے آئے

وہ کڑی دھوپ کے دن وہ تپش راہ وفا
وہ سواد شب گیسو کے گھنیرے سائے

دولت طبع سخن گو ہے امانت اس کی
جب تری چشم سخن ساز طلب فرمائے

جستجوئے غم دوراں کو خرد نکلی تھی
کہ جنوں نے غم جاناں کے خزینے پائے

سب مجھے مشورۂ ترک وفا دیتے ہیں
ان کا ایما بھی ہو شامل تو مزہ آ جائے

کیا کہوں دل نے کہاں سینت کے رکھا ہے اسے
نہ کبھی بھولنے پاؤں نہ مجھے یاد آئے

میں نے حافظ کی طرح طے یہ کیا ہے عابدؔ
بعد ازیں مے نہ خورم بے کف بزم آرائے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse